کتاب: مقالات ارشاد الحق اثری جلد5 - صفحہ 43
شیخ الحدیث صاحب! امام بخاری رحمہ اللہ کی طرف اس فتوے کا انتساب صریح جھوٹ اور امام بخاری رحمہ اللہ پر بہتانِ عظیم ہے۔ اللہ کا شکر ہے کہ انہی کے ایک اور شیخ الحدیث نے انھیں خاموش رہنے کا کہا اور اس کی بھی وضاحت کر دی کہ امام صاحب کی طرف اس کا انتساب درست نہیں۔ یہ قصہ یوں بیان کیا جاتا ہے کہ امام بخاری، بخارا تشریف لائے۔ لوگ ان سے مسائل دریافت کرتے تو وہ ان کا جواب دیتے، مگر مشہور حنفی فقیہ احمد بن حفص ابو حفص کبیر المتوفی ۲۱۷ھ نے انھیں فتویٰ دینے سے منع کر دیا اور کہا کہ تم فتویٰ دینے کے اہل نہیں ہو۔ مگر امام بخاری رحمہ اللہ فتویٰ دینے سے باز نہ آئے، تاآنکہ ان سے یہ سوال کیا گیا کہ دو بچوں نے اگر بکری یا گائے کا دودھ پیا ہو تو اس سے رضاعت ثابت ہوتی ہے یا نہیں؟ انھوں نے جواب دیا: رضاعت ثابت ہو جاتی ہے۔ ان کے اس فتویٰ کی بنا پر لوگوں نے انھیں بخارا سے نکال دیا۔ جہاں تک میری معلومات ہیں، یہ قصہ سب سے پہلے علامہ محمد بن احمد ابوبکر شمس الائمہ سرخسی المتوفی ۴۳۸ھ نے المبسوط (۵/۱۳۵) اور (۳۱/۲۹۷) میں ذکر کیا ہے۔ اس کے بعد یہی قصہ حافظ عبدالقادر قرشی نے الجواہر المضیہ (۱/۶۷) میں اور علامہ ابو البرکات عبداللہ بن احمد النسفی نے کشف الاسرار شرح المنار میں صاحب العنایہ اور شیخ حسین بن محمد الدیار بکری نے تاریخ الخمیس (۲/۳۴۲) میں کشف کے حوالے سے نقل کیا ہے۔ حالانکہ علامہ سرخسی نے اس کی کوئی سند اور حوالہ پیش نہیں کیا۔ یہ بزرگ اپنی تمام تر عظمتوں کے باوصف اپنی اس کتاب میں احادیثِ مبارکہ ذکر کرنے میں بڑے دلیر اور متساہل ہیں۔ وہ بڑی جرأت سے بے اصل روایات بلااسناد ذکر کرتے ہیں۔ یہ تو ایک