کتاب: مقالات ارشاد الحق اثری جلد5 - صفحہ 42
الصَّحِیْحَۃِ فَإِنَّ أَکْثَرُ الْعُلَمَائِ فَھِمُوْ مِنْ إِیْرَادِہِ أَقْوَالَ الصَّحَابَۃِ وَالتَّابِعِیْنَ وَفُقَھَائِ الْأَمْصَارِ إِنَّ مَقْصُوْدَہُ أَنْ یَّکُوْنَ کِتَابُہُ جَامِعاً لِلرَّوَایَۃِ وَالدَّرَایَۃِ‘‘[1]
’’اس کتاب کا اگرچہ اصل موضوع صحیح احادیث بیان کرنا ہے، تاہم اکثر علما نے اس میں اقوالِ صحابہ و تابعین اور فقہائے امصار کے اقوال آنے سے سمجھا ہے کہ امام صاحب کا مقصد یہ ہے کہ ان کی کتاب روایت و درایت کی جامع ہو۔‘‘
گویا یہ کتاب صحیح احادیث کے ساتھ ساتھ فقہ الحدیث کا ایک نادر مجموعہ ہے جو ستانوے کتب اور تین ہزار آٹھ سو ستاون ابواب پر مشتمل ہے۔ یعنی امام بخاری رحمہ اللہ نے تین ہزار آٹھ سو ستاون مسائل کو قرآن مجید اور صحیح احادیثِ مبارکہ سے ثابت کیا ہے۔ اس بیّن حقیقت کے باوجود بعض مسموم اذہان کو امام بخاری کا فقیہ اور مجتہد ہونا ناگوار گزرتا ہے۔
بلکہ بعض عاقبت نااندیش لوگوں نے تو امام بخاری رحمہ اللہ کے اس مقام کو داغ دار کرنے کے لیے ایک قصہ گھڑ کر ان کی طرف منسوب کر دیا اور آج تک وہ اس جھوٹے واقعے کو ڈھال بنائے ہوئے ہیں۔ چند سال کی بات ہے کہ ایک مسئلے کی تحقیق و تنقیح کے لیے حکومتی سطح پر ایک مجلس بلائی گئی۔ دورانِ گفتگو میں ہیچمداں نے امام بخاری رحمہ اللہ کے موقف کا اشارہ کیا تو بریلوی مکتبِ فکر کے ایک بڑے جامعہ کے شیخ الحدیث نے گل چھڑی اڑائی کہ امام بخاری نے تو یہ فتویٰ دیا تھا، ان کی رائے کا کیا اعتبار؟! ان کی اس جسارت پر میری حیرت کی انتہا نہ رہی، میں نے بآوازِ بلند کہا:
[1] فتح الباري (۶/۳۶۶).