کتاب: مقالات ارشاد الحق اثری جلد5 - صفحہ 40
’’سحق الأغنیاء من الطاعنین في کمل الأولیاء والأتقیاء والعلماء‘‘ کے حوالے سے لکھتے ہیں:
’’قَالَ سُلَیْمَانُ بْنُ إِبْرَاھِیْمَ الْعَلْوِيُّ: الْبُخَارِيُّ إِمَامٌ مُّجْتَھِدٌ بِرَأْسِہِ کَأَبِيْ حَنِیْفَۃَ وَالشَّافِعِيِّ وَالمَالِکِ وَأحْمَدَ‘‘[1]
’’سلیمان بن ابراہیم علوی نے کہا ہے کہ امام بخاری امام، مستقل مجتہد ہیں، جیسے امام ابو حنیفہ، شافعی، مالک اور احمد رحمہم اللہ ہیں۔‘‘
کسی کے کہنے کی کیا بات، خود امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنے موقف و مذہب کی وضاحت فرما دی ہے:
’’لَا أَعْلَمُ شَیْئًا یَّحْتَاجُ إِلَیْہِ إِلَّا وَھُوَ فِي الْکِتَابِ وَالسُّنَّۃِ، فَقُلْتُ لَہُ: یُمْکِنُ مَعْرِفَۃُ ذَلِکَ کُلِّہِ؟ قَالَ: نَعَمْ‘‘[2]
’’انسان جس مسئلے کا بھی محتاج ہے اس کا جواب کتاب و سنت میں موجود ہے۔ میں (ان کے تلمیذ محمد بن ابی حاتم وراق) نے کہا: کیا ان تمام مسائل کی معرفت ممکن ہے؟ تو انھوں نے فرمایا: ہاں۔‘‘
اس سے امام بخاری کے موقف کو سمجھا جا سکتا ہے کہ وہ مسائل کے حل میں کتاب اللہ اور سنتِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کافی و شافی سمجھتے ہیں۔ کسی فقہ کی پیروی کا ان کے ہاں کوئی تصور نہیں۔ شارحِ صحیح بخاری حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے بالکل بجا فرمایا ہے:
’’لَمْ نَجِدْ عَنْ أَحَدٍ مِّمَّنْ عَرَفَ حَالَ الْبُخَارِيِّ وَسِعَۃَ عِلْمِہِ وَجَوْدَۃَ تَصَرُّفِہِ حَکَی أَنَّہُ کَانَ یُقَلِّدُ فِيْ التَّرَاجِمِ وَلَوْ کَانَ کَذَلِکَ لَمْ یَکُنْ لَہُ مَزِیَّۃٌ عَلیٰ غَیْرِہِ وَقَدْ تَوَارَدَ النَّقْلُ عَنْ
[1] مقدمۃ اللامع الداري (۱/۶۸).
[2] السیر (۱۲/۴۱۲) و مقدمۃ فتح الباري.