کتاب: مقالات ارشاد الحق اثری جلد5 - صفحہ 38
امام قتیبہ کی بات کا بجز اس کے اور کیا مفہوم ہو سکتا ہے کہ امام بخاری ان حضرات کے علوم و معارف کے امین اور وارث ہیں، بلکہ امام اسحاق، جو حدیث اور فقہ کے امام اور مجتہد ہیں، نے تو فرمایا ہے:
’’لَوْ کَانَ فِيْ زَمَنِ الْحَسَنِ بْنِ أَبِيْ الْحَسَنِ الْبَصْرِيِّ لَاحْتَاجَ إِلَیْہِ لِمَعْرِفَتِہٖ بِالْحَدِیْثِ وَالْفِقْہِ‘‘[1]
’’اگر محمد بن اسماعیل بخاری، امام حسن بصری کے دور میں ہوتے تو حسن بصری بھی ان کی حدیث اور فقہ میں معرفت کی بنا پر ان کے محتاج ہوتے۔‘‘
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کے الفاظ ہیں:
’’جَبْلُ الْحِفْظِ وَإِمَامُ الدُّنْیَا فِيْ فِقْہِ الْحَدِیْثِ‘‘[2]
’’حفظ کے پہاڑ اور فقہ الحدیث میں دنیا کے امام ہیں۔‘‘
امام بخاری رحمہ اللہ کے بارے میں اسی قسم کی آرا دیگر اہلِ علم سے بھی منقول ہیں، ہمارا مقصد اس حوالے سے تمام اقوال کا استیعاب نہیں۔ بتلانا صرف یہ ہے کہ انھیں ان کے اساتذہ، شیوخ معاصرین اور بعد کے دور کے بہت سے اہلِ علم نے فقیہ اور مجتہد قرار دیا ہے۔ اور اس حقیقت کا اعتراف تو ان حضرات نے بھی کیا ہے جن کے بعض اکابرین نے ائمہ اربعہ کے بعد اجتہاد کا دروازہ ہی بند کر دیا ہے۔ چنانچہ علامہ کشمیری فرماتے ہیں:
’’وَاعْلَمْ أَنَّ الْبُخَارِيُّ مُجْتَھِدٌ لَّا رَیْبَ فِیْہِ وَأَمَّا مَا اشْتَھَرَ أَنَّہُ شَافِعِيٌّ فَلِمُوَافِقَۃِ إِیَّاہُ فِي الْمَسَائِلِ الْمَشْھُوْرَۃِ وَإِلَّا فَمُوَافَقَتَہُ
[1] مقدمہ فتح الباري (ص: ۴۸۳) وغیرہ.
[2] تقریب (ص: ۸۲۵).