کتاب: مقالات ارشاد الحق اثری جلد5 - صفحہ 37
بن اسماعیل ہمارے امام، ہمارے اور خراسان کے فقیہ ہیں۔‘‘[1] امام ابو مصعب احمد بن ابی بکر ازہری (المتوفی ۲۴۲ھ) جو اہلِ مدینہ کے فقیہ اور امام مالک سے ان کے موطا کے راوی ہیں اور امام دارقطنی نے موطا میں ان کی روایت کو یحییٰ بن بکیر کی روایت سے راجح قرار دیا ہے، فرماتے ہیں: ’’محمد بن اسماعیل ہمارے نزدیک امام احمد سے زیادہ فقیہ اور حدیث میں ان سے زیادہ بصیرت رکھتے ہیں۔‘‘ حاضرین میں سے کسی نے کہا: آپ نے حد سے تجاوز کیا ہے (کہ امام احمد رحمہ اللہ سے بھی امام بخاری کو بڑھا دیا ہے) تو امام ابو مصعب نے فرمایا: ’’لَوْ أَدْرَکْتَ مَالِکاً وَّنَظَرْتَ إِلیٰ وَجْھِہٖ وَوَجْہِ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْمَاعِیْلَ لَقُلْتَ: کِلَاھُمَا وَاحِدٌ فِي الْحَدِیْثِ وَالْفِقْہِ‘‘[2] ’’اگر تم امام مالک سے ملتے اور ان کو اور محمد بن اسماعیل کو دیکھتے تو تم کہتے کہ دونوں حدیث اور فقہ میں ایک ہی مرتبے پر فائز ہیں۔‘‘ امام نعیم بن حماد اور یعقوب بن ابراہیم الدورقی نے فرمایا ہے کہ محمد بن اسماعیل ’’فَقِیْہُ ھَذِہِ الْأُمَّۃِ‘‘[3] ’’اس امت کے فقیہ ہیں۔‘‘ امام قتیبہ بن سعید رحمہ اللہ کے پاس سائل نے طلاقِ سکران کے بارے میں پوچھا، حسنِ اتفاق کہ جواب دینے سے پہلے امام بخاری رحمہ اللہ وہاں پہنچ گئے تو امام قتیبہ نے فرمایا: ’’یہ احمد بن حنبل، اسحاق بن راہویہ اور علی بن مدینی ہیں، اللہ تعالیٰ نے تمھارے مسئلے کے حل کے لیے انھیں بھیجا ہے۔‘‘[4]
[1] السیر (۱۷/۴۲۵). [2] مقدمہ فتح الباري (ص: ۴۸۲). [3] السیر (۱۲/۴۲۴)، تھذیب (۹/۵۱). [4] السیر (۱۲/۴۱۸).