کتاب: مقالات ارشاد الحق اثری جلد5 - صفحہ 36
مصنف ہیں مگر وہ اس قابل نہیں کہ تنہا ان کے قول پر اعتماد کیا جائے، کیوں کہ حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے انھیں ضعیف قرار دیا ہے۔[1] ابو جعفر المالقی نے کہا ہے: ’’فیہ نظر‘‘ اور اندلس کی ایک جماعت اس پر معترض تھی اور بسا اوقات کہتے تھے: وہ جھوٹا ہے۔ مگر قاضی محمد بن احمد نے کہا ہے کہ وہ جھوٹا تو نہ تھا، البتہ ضعیف العقل تھا۔ علامہ ابن الفرضی نے تو کہا ہے کہ اس سے مشبہہ جیسا برا کلام محفوظ کیا گیا ہے۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اگرچہ اس کے فرقہ مبتدعہ مشبہہ سے تعلق کی نفی کی ہے مگر علامہ ابن الفرضی کا قول ان سے بہرحال مقدم ہے۔ لہٰذا جب حافظ مسلمہ خود ضعیف اور ناقابلِ اعتبار ہے تو اس کے اس قول سے امام بخاری رحمہ اللہ کے بارے میں کہی گئی باتیں کیونکر قابلِ اعتبار ہو سکتی ہیں۔ مگر افسوس ہے کہ حاسدینِ امام بخاری اُس کے اسی بے ثبوت قول کو امام ابو احمد الحاکم وغیرہ کے قول کے مقابلے میں پیش کر کے اپنا غم غلط کرنے کی ناکام کوشش کرتے ہیں۔ امام بخاری رحمہ اللہ میں جہاں ایک محدث کے کامل اوصاف پائے جاتے ہیں اور اس فن کے ائمہ کا امام ہونے کا انھیں شرف حاصل ہے وہاں وہ فقہ الحدیث اور مسائل کے استنباط و استخراج میں بھی امامت کے بلند مرتبے پر فائز تھے۔ چنانچہ ان کے مشہور استاد امام محمد بن بشار، جن کا لقب بندار تھا، فرماتے ہیں: ’’ھُوَ أَفْقَہُ خَلْقِ اللّٰہِ فِيْ زَمَانِنَا‘‘ ’’وہ ہمارے زمانے میں سب سے بڑے فقیہ ہیں۔‘‘ امام بندار بصرہ میں سکونت پذیر تھے۔ امام بخاری رحمہ اللہ بصرہ تشریف لے گئے تو انھوں نے فرمایا: ’’قَدِمَ الْیَوْمَ سَیِّدُ الْفُقَھَائِ‘‘ ’’آج ہمارے فقہا کے سردار آئے ہیں۔‘‘ حاتم بن محمد وراق کہتے ہیں کہ میں نے علمائے مکہ سے سنا، فرماتے تھے: ’’محمد
[1] السیر (۱۶/۱۱۱)، میزان (۴/۱۱۲).