کتاب: مقالات ارشاد الحق اثری جلد5 - صفحہ 30
’’امام مسلم رحمہ اللہ نے امام بخاری رحمہ اللہ کے طریقے کی پیروی کی ہے، ان کے علم کا اندازہ لگایا ہے اور انہی کی چال چلے ہیں۔ امام بخاری رحمہ اللہ جب آخری بار نیشاپور آئے تو امام مسلم رحمہ اللہ ان کے ساتھ ہو رہے اور ہمیشہ ان کے ہاں آتے جاتے تھے۔‘‘
امام بخاری رحمہ اللہ نے شام کے ایک راوی کا نام ’’حسان بن وبرہ ابو عثمان النمری‘‘ ذکر کیا ہے اور یہی نام امام مسلم رحمہ اللہ نے ذکر کیا ہے۔ علامہ ابن عساکر فرماتے ہیں: یہ ان کا وہم ہے، صحیح ’’حیان‘‘ ہے اور وہ ’’المری‘‘ ہے ’’النمری‘‘ نہیں۔ یہ ساری تفصیل بیان کر کے لکھتے ہیں:
’’وَمُسْلِمٌ یَّتْبَعُ الْبُخَارِيَّ فِيْ أَکْثَرِ مَا یَقُوْلُ وَأَھْلُ الشَّامِ أَعْلَمُ بِہِ مِنْ غَیْرِھِمْ‘‘[1]
’’امام مسلم، امام بخاری کی اکثر اتباع کرتے ہیں، حالانکہ اہلِ شام شامیوں کو دوسروں سے زیادہ جانتے ہیں۔‘‘
اس لیے امام ابو زرعہ ہوں، امام ابو حاتم ہوں یا امام مسلم ان کے بارے میں ان ائمہ کبار کی یہی رائے ہے کہ یہ حضرات امام بخاری رحمہ اللہ کے خوشہ چین ہیں۔ اس پر کسی کا چیں بہ جبیں ہونا محض امام بخاری رحمہ اللہ سے حسد و بغض کا نتیجہ ہے۔ امام ابو زرعہ اور امام مسلم نے امام بخاری سے استفادہ کیا ہے اور اس میں اضافہ اور مزید نکھار پیدا کرنے کی کوشش کی ہے جس کا کوئی انکار نہیں کر سکتا مگر ان کا اصل الاصول اور بنیاد امام بخاری رحمہ اللہ کی ’’التاریخ‘‘ اور ’’الجامع الصحیح‘‘ ہیں، لہٰذا انصاف کا یہی تقاضا ہے کہ الفضل للمتقدم۔
[1] ابن عساکر (۱۵/۳۷۲).