کتاب: مقالات ارشاد الحق اثری جلد5 - صفحہ 25
اور احادیث کی علل کے حوالے سے سوال کرتے تھے تو امام بخاری رحمہ اللہ تیر نکل جانے کی مانند جلد جلد بلاتکلف جواب دیتے جاتے تھے، گویا کہ وہ ﴿قُلْ هُوَ اللّٰهُ أَحَدٌ ﴾ پڑھ رہے ہیں۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے التاریخ الکبیر اٹھارہ سال کی عمر میں، چاندنی راتوں میں، مسجدِ نبوی میں، حجرۂ مبارک اور منبر کے درمیان ’’روضۃ من ریاض الجنۃ‘‘ میں بیٹھ کر لکھی۔ وہ خود فرماتے ہیں کہ لوگوں نے ’’التاریخ‘‘ کو سمجھا نہیں اور نہ اسے پہچانا ہی ہے۔ میں نے اسے تین بار مرتب کیا ہے۔[1] ظاہر ہے کہ وہ ہر بار اس میں اصلاح اور حک و اضافہ کرتے ہوں گے۔ یہاں یہ بات بھی پیشِ نظر رہے کہ بعض حاسدین کو امام بخاری رحمہ اللہ کے بارے میں ابو احمد الحاکم الکبیر کی یہ رائے بڑی ناگوار گزری تو انھوں نے اس بارے میں امام ابن ابی حاتم کی کتاب ’’بیان خطأ محمد بن إسماعیل البخاري في تاریخہ‘‘ کے سہارے امام ابو احمد کی تردید کی بے کار کوشش کی ہے، جس میں انھوں نے امام ابو زرعہ اور امام ابو حاتم کے ان اعتراضات کو جمع کیا ہے جو انھوں نے ’’التاریخ الکبیر‘‘ پر کیے تھے۔ امام ابو احمد الحاکم ہی نے ذکر کیا ہے کہ ایک دفعہ میں رَے میں مقیم تھا، ایک دن میں نے دیکھا کہ طلبا ابن ابی حاتم پر کتاب ’’الجرح والتعدیل‘‘ پڑھ رہے ہیں تو میں نے ابن عبدویہ الوراق سے کہا: یہ عجیب مذاق ہو رہا ہے کہ تم لوگ بعینہٖ محمد بن اسماعیل بخاری کی التاریخ پڑھتے ہو اور اسے ابو زرعہ اور ابو حاتم کی طرف منسوب کرتے ہو؟ تو الوراق نے کہا: اے ابو احمد! تمھیں معلوم ہونا چاہیے کہ جب ابو زرعہ اور ابو حاتم کے سامنے تاریخ البخاری پیش کی گئی تو وہ فرمانے لگے: ’’یہ ایسا بیش قیمت علم ہے کہ اس کے بغیر چارہ نہیں اور ہمارے لیے مناسب نہیں کہ
[1] تاریخ بغداد (۲/۹۱۷).