کتاب: مقالات ارشاد الحق اثری جلد4 - صفحہ 87
شیخ الاسلام حافظ ابن تیمیہ رحمہ اللہ انھیں رجال کا امام قرار دیتے ہوئے فرماتے ہیں: ’’ان کی جرح و تعدیل کو وہی مقام حاصل ہے جو امام مالک، سفیان ثوری، اوزاعی، شافعی اور ان جیسے دیگر حضرات کو احکام اور حلت و حرمت کی معرفت میں حاصل تھی۔‘‘[1] علامہ السبکی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’الحافظ المشھور، شیخ الإسلام، صاحب المصنفات، إمام زمانہ، وسید أھل عصرہ، وشیخ أھل الحدیث‘‘[2] خطیب بغدادی رحمہ اللہ نے ذکر کیا ہے کہ میں نے حمزہ بن محمد بن طاہر الدقاق کے خط سے یہ لکھا ہوا دیکھا: جعلناک فیما بیننا ورسولنا وسیطاً فلم تظلم ولم تتحوب فأنت الذي لولاک لم یعرف الوریٰ ولو جھدوا ما صادق من مکذب[3] محمد بن طاہر المقدسی فرماتے ہیں؛ ’’وہ اپنے زمانے میں اسی طرح تھے، جیسے اپنے زمانے میں امام یحییٰ بن معین تھے۔‘‘[4] حافظ ذہبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
[1] الرد علی البکري (ص: ۱۳،۱۴). [2] طبقات الشافعیہ (۲/۳۱۰). [3] تاریخ بغداد (۱۲/۳۹). [4] أطراف الغرائب (۱/۴۵).