کتاب: مقالات ارشاد الحق اثری جلد4 - صفحہ 37
معاملہ ہوتا تھا، مقدور بھر تعاون میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھتے تھے، مولانا اثری صاحب نے ان کے اپنی کمر پر گندم کی بوریاں اٹھانے کی جو بات کی ہے، راقم اس کا چشمِ دید گواہ ہے۔ ریڑھے، چھکڑے یا ٹرک وغیرہ پر جب جامعہ کے لیے سیزن میں گندم کی بوریاں آتیں تو انھیں اتار کر سٹور میں پہنچانا ایک مشکل مرحلہ ہوتا تھا، بڑی عمر کے دو دو طالب علم مل کر بوری اٹھاتے مگر چیمہ صاحب تنِ تنہا اپنی کمر پر الٹا کر انھیں سٹور میں پہنچا دیا کرتے تھے۔
چیمہ صاحب ساری زندگی مختلف شکلوں میں بہت سے دینی اداروں کی سرپرستی فرماتے رہے، جب کہ ادارۃ العلوم الاثریہ کا پودا تو انھوں نے لگایا ہی اپنے ہاتھوں سے تھا، راقم کے محسن و مربی تھے، ہم نے ان سے بہت کچھ سیکھا ہے۔ نوّر اللّٰه مرقدہ، وبرد مضجعہ۔
’’تم کیا گئے، روٹھ گئے دن بہار کے‘‘ کے زیرِ عنوان حضرت سید ابوبکر غزنوی رحمہ اللہ سے متعلق بڑا ہی خوب صورت مقالہ ہے، راقم نے سب سے پہلے ۱۹۶۲ء میں حضرت سید صاحب رحمہ اللہ کی زیارت کا شرف حاصل کیا اور بحمداللہ یہ شرف مسلسل دو ماہ تک حاصل رہا۔ حضرت ان دنوں اسلامیہ کالج لاہور میں مسندِ تدریس پر فائز تھے اور اس سال موسمِ گرما کی چھٹیاں گزارنے کے لیے جامعہ سلفیہ میں تشریف لے آئے، تاکہ ان ایامِ تعطیلات میں شیخ العرب والعجم حضرت محدث گوندلوی رحمہ اللہ اور شیخ المعقولات حضرت مولانا شریف اللہ خان صاحب رحمہ اللہ سے اپنی علمی تشنگی کی تسکین کا سامان فراہم کر سکیں۔ درمیان میں کئی سال کے تعطل کے بعد ایک ایسا وقت بھی آیا کہ ان سے ارادت و عقیدت کے بے حد گہرے مراسم قائم ہو گئے، حضرت سید صاحب رحمہ اللہ بھی بے پناہ محبت و شفقت سے نوازنے لگے۔ ان کے دل میں اسلام کا