کتاب: مقالات ارشاد الحق اثری جلد4 - صفحہ 36
وہابیوں میں بھی کوئی ولی ہوا ہے؟ تو انھوں نے جواب دیا کہ کوئی ہوا ہے یا نہیں، اس کا تو مجھے علم نہیں، البتہ وہابیوں میں کوئی زندہ ولی دیکھنا ہو تو جھال پر جا کر مولانا عبداللہ صاحب کی زیارت کر لو۔ مولانا نے بھی فقہی اختلاف کے باوجود ان سے ’’ترتیب شریف‘‘ اور اسماء النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سلسلے میں بہت زیادہ علمی تعاون فرمایا، حضرت الشیخ کے حسبِ ارشاد ’’ترتیب شریف‘‘ کی بہت سی دعاؤں کا ترجمہ راقم الحروف کے قلم سے ہے اور اس سلسلے میں مجھے بھی کئی بار دار الاحسان جانے کا اتفاق ہوا، جناب صوفی صاحب بے پناہ اپنائیت کا مظاہرہ فرماتے۔ محبت و شفقت سے گلے لگا لیتے اور دعائیں دیتے، اس سلسلے کی تفصیلات کو طوالت کے خوف سے حذف کیا جاتا ہے۔ ’’محترمی و مشفقی‘‘ کے زیرِ عنوان حضرت مولانا محمد اسحاق چیمہ صاحب رحمہ اللہ کے بارے میں بہت معلومات افزا اور فکر انگیز مقالہ لکھا گیا ہے، میں نے مولانا چیمہ مرحوم کو سب سے پہلے ۱۹۶۱ء میں دیکھا تھا، آپ اس وقت جامعہ سلفیہ کے ناظم تھے اور میں نے جامعہ کے پہلے درجے میں داخلہ لیا تھا، میرے داخلہ فارم پر بحیثیت ناظم چیمہ صاحب ہی نے دستخط فرمائے تھے، مولانا اثری صاحب نے چیمہ صاحب کی تانگوں والوں سے رد و کد کی بات جو بیان فرمائی ہے، یہ بات اس وقت جامعہ کے طلبا میں بھی مشہور و معروف تھی، صرف اسی سے اندازہ لگائیں کہ ہمارے ان بزرگوں نے کس طرح خونِ جگر سے ان اداروں کو سینچا تھا، جس کی وجہ سے ان میں یہ بہار آئی ہوئی ہے، چیمہ صاحب کا وہ بھرپور عہدِ شباب تھا، شخصیت میں رعب داب تھا، طلبا دور ہی سے دیکھ کر کونوں گوشوں میں چھپنے کی کوشش کرتے کہ ناظم صاحب آرہے ہیں، ناظم صاحب آرہے ہیں، لیکن ناظم صاحب کا طلبا کے ساتھ نہایت محبت و شفقت کا