کتاب: مقالات ارشاد الحق اثری جلد4 - صفحہ 35
رفعتوں کے ساتھ نماز باجماعت کی شدید پابندی۔ فرائض تو فرائض، سنن و نوافل کا بھی شدید اہتمام۔ ایک بار جناب حاجی محمد شریف صاحب نے بتایا کہ ایک دفعہ میں حضرت مولانا صاحب کے ساتھ سفر میں تھا، رات کا سفر تھا، نمازِ فجر کا وقت ہوا تو آپ نے فرمایا کہ گاڑی کھڑی کر لو، تاکہ میں سنتیں پڑھ لوں، میں نے عرض کی کہ تھوڑی دیر تک ہم مسجد میں پہنچ جائیں گے تو انھوں نے فرمایا کہ جب ہم مسجد میں پہنچیں گے تو جماعت کھڑی ہو جائے گی اور بحمداللہ میری چالیس سال سے صبح کی سنتیں قضا نہیں ہوئیں، لہٰذا گاڑی کھڑی کر لو، تاکہ آج بھی میری سنتیں قضا نہ ہوں۔ ۱۹۸۳ء میں آپ جب حجِ بیت اللہ کے لیے تشریف لے جانے کی غرض سے کراچی میں تشریف فرما تھے تو حسنِ اتفاق کہ بندۂ عاجز بھی ان دنوں کراچی میں تھا، آپ کی تشریف آوری کے بارے میں معلوم ہوا تو فوراً کشاں کشاں محمدی مسجد بزنس روڈ میں آپ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ بے پناہ محبت و شفقت کا مظاہرہ فرمایا، طویل مجلس ہوئی، بہت سی باتیں ارشاد فرمائیں اور پھر فرمایا کہ اگر اللہ کو واپسی منظور ہو گی تو ایک دن تمھارے گھر قیام کروں گا اور پھر ساری باتیں وہاں ہوں گی، لیکن یہ کسے معلوم تھا کہ حضرت الشیخ سے یہ آخری ملاقات ہے۔ تمام دینی حلقوں میں ہمارے شیخ کو یکساں احترام سے دیکھا جاتا تھا، حضرت کے ہمراہ ایک دفعہ دار الاحسان میں جانے کا اتفاق ہوا، نمازِ ظہر کا وقت ہوا تو جناب صوفی برکت علی صاحب نے آپ سے فرمایا: مولانا تشریف لائیں اور نماز پڑھائیں۔ آپ سنت کے مطابق رفع الیدین کے ساتھ نماز ادا فرما رہے تھے اور مقتدیوں میں سے یہ خاکسار اس سنت پر عمل پیرا تھا، جناب صوفی صاحب تو آپ سے اس طرح عقیدت رکھتے تھے کہ ایک دفعہ ان کے ایک مرید نے جب ان سے یہ پوچھا کہ