کتاب: مقالات ارشاد الحق اثری جلد4 - صفحہ 34
یا دعا و مناجات میں مشغول ہیں، اللہ جانے وہ سوتے کب تھے؟ حضرت حافظ صاحب نہ صرف عابد و زاہد اور تہجد گزار و شب زندہ دار بزرگ تھے، بلکہ ہم نے اسلاف کی علمی رفعتوں اور عظمتوں کے تذکرے جو کتابوں میں پڑھے ہیں، حضرت حافظ صاحب ان کی ایک زندہ مثال تھے۔ حضرت مولانا شریف اللہ خاں صاحب رحمہ اللہ ، حضرت حافظ صاحب کے جامعہ سے تشریف لے جانے کے بعد بھی مسندِ تدریس پر جلوہ افروز رہے، اس لیے راقم کو بھی ان سے تلمذ کا شرف حاصل ہے، فلسفہ و منطق، صرف و نحو، عربی زبان و ادب اور فقہ پر انھیں زبردست مہارت حاصل تھی، ان کے پڑھانے کا انداز نہایت دل نشین تھا، یوں محسوس ہوتا تھا جیسے کوئی بوڑھا باپ محبت اور شفقت سے اپنے بچوں سے میٹھی میٹھی باتیں کر رہا ہو۔ بہرآئینہ حضرت محدث گوندلوی رحمہ اللہ سے متعلق آپ کا مقالہ دلوں کے تار ہلا گیا اور اس سے کئی بھولی بسری باتیں یاد آگئیں۔ یہی حال استاذ العلماء شیخ المشایخ حضرت مولانا محمد عبداللہ محدث فیصل آبادی رحمہ اللہ سے متعلق مقالہ پڑھتے ہوئے ہوا کہ وہ میرے بھی شیخ، مربی، معلم اور مرشد ہیں، میں نے بھی ادارۃ العلوم الاثریہ میں آپ کے سامنے زانوئے تلمذ تہ کیے ہیں، اس اعتبار سے وہ میرے عظیم محسن بھی ہیں کہ آپ، حضرت مولانا چیمہ صاحب رحمہ اللہ کی معیت میں ہمارے گاؤں چک نمبر ۳۶ گ ب میں تشریف لائے، ادارۃ العلوم الاثریہ کا تعارف کروایا اور مجھے ادارے میں کسبِ فیض کی ترغیب دی۔ حضرت الشیخ کو داغِ مفارقت دیے ہوئے قریباً پینتیس برس کا عرصہ ہو چکا ہے لیکن ابھی تک ان کا سراپا آنکھوں کے سامنے ہے، وہ پربہار چہرہ، باغ و بہار شخصیت، علومِ حدیث، خصوصاً رجال میں مہارت اور تخریج کا ایسا ملکہ کہ اس کی مثال دور دور تک نظر نہیں آئے گی، علم و فضل کی