کتاب: مقالات ارشاد الحق اثری جلد4 - صفحہ 33
یہ بات بتانے کی شدید ضرورت ہے کہ ہمارا ماضی کس قدر درخشاں اور تابناک ہے ہمارے اسلاف نے علوم و فنون کے میدانوں میں کیسے کیسے معرکے سرانجام دیے ہیں کامیابی و کامرانی انہی کے نقشِ قدم پر چلنے میں ہے، میڈیا کا منفی اور بے روک ٹوک استعمال توناکارہ اور معطل کر کے رکھ دے گا۔ حضرت محدث گوندلوی رحمہ اللہ کی اقتدا میں دو سال تک نمازیں ادا کی ہیں اور ان کا سورت فاتحہ کا وہ درس سننے کی بھی سعادت حاصل کی جو مسلسل دس ماہ تک جاری رہا تھا، یہ الگ بات کہ کم سنی کے باعث ان کے بہت سے ارشادات سمجھ سے بالا تھے، مجھے یاد ہے کہ اس وقت کے جامعہ کے بہت سے اساتذۂ کرام بھی حضرت کے بیان فرمودہ علمی نکات نوٹ فرمایا کرتے تھے، جو طلبا درس میں حاضری میں سستی و کاہلی کا مظاہرہ کرتے تو حضرت الاستاذ محدث بڈھی مالوی رحمہ اللہ ’’عصائے کلیمی‘‘ پکڑے ہوئے انھیں جامعہ کے کونوں گوشوں سے ڈھونڈ ڈھونڈ کر نکالتے اور فرماتے کہ دیکھو علم و عرفان کی کیسی بارش ہو رہی ہے اور تم اس سے محروم ہو رہے ہو، حضرت محدث گوندلوی رحمہ اللہ کا وہ نمازوں میں خشوع و خضوع، جہری نمازوں میں پرسوز تلاوت اور کثرتِ ذکر، اسباق میں نظم و نسق کی زبردست پابندی ایک ایک کر کے ساری باتیں یاد آرہی ہیں۔ حضرت کے جامعہ سے تشریف لے جانے کے بعد کی بات ہے کہ میں نے ایک دفعہ حضرت الاستاذ مولانا شریف اللہ خاں صاحب رحمہ اللہ سے پوچھا کہ آپ اور حضرت حافظ صاحب کافی عرصہ ایک ہی کمرے میں اکٹھے رہے ہیں، ان کی کوئی خاص بات بتائیں؟ انھوں نے فرمایا: میں کیا بتاؤں میں تو اس عرصہ میں یہی سوچتا رہا ہوں کہ یہ کوئی انسان ہیں یا آسمانوں سے اترا ہوا کوئی نورانی فرشتہ! کیونکہ رات کو جب بھی میری آنکھ کھلتی تو میں دیکھتا کہ آپ نماز میں یا تلاوتِ قرآن مجید میں یا ذکر و فکر میں