کتاب: مقالات ارشاد الحق اثری جلد4 - صفحہ 32
نہ ہونے کی وجہ سے انھیں عربی بول چال میں قدرے دشواری محسوس ہوتی ہے۔
مولانا کاظم رحمہ اللہ ہی نے حضرت سے متعلق دوسرا واقعہ اس طرح بیان کیا کہ ایک دفعہ جامعہ مدینہ کے ایک طالب علم نے آپ سے پوچھا کہ شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کا علمی مقام زیادہ اونچا ہے یا حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کا؟ حضرت حافظ صاحب نے جواب میں ارشاد فرمایا کہ عقلیات میں شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کا مقام زیادہ اونچا ہے اور حدیث و فنونِ حدیث میں حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کا مقام زیادہ ہے۔ حضرت حافظ صاحب کے اس جواب کے بارے میں جب اس وقت کے یونیورسٹی کے وائس چانسلر سماحۃ الشیخ ابن باز رحمہ اللہ کو علم ہوا جو خود بھی علم و فضل کے بہت ہی اونچے مقام و مرتبہ پر فائز تھے تو انھوں نے ایک دن جامعہ مدینہ کی مسجد میں بعد از نمازِ ظہر یہ اعلان کروا دیا کہ تمام اساتذہ کرام اور طلبا تشریف رکھیں، فضیلۃ الشیخ الحافظ شیخ الاسلام ابن تیمیہ اور حافظ ابن حجر رحمہما اللہ کے علمی مقام و مرتبہ پر لیکچر دیں گے، حضرت حافظ صاحب سے اس لیکچر کی نہ منظوری لی گئی اور نہ ہی آپ کو اس کے بارے میں پہلے سے کچھ بتایا گیا تھا، لیکن اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم اور اس کی رحمت اور توفیق سے حضرت حافظ صاحب نے اس طرح لیکچر دیا اور اپنے موقف کی تائید میں شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ اور شیخ الاسلام حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کی کتابوں سے نہ صرف بے شمار دلائل و شواہد پیش فرمائے، بلکہ ان کی کتابوں کی عبارتوں کی عبارتیں زبانی پڑھ کر سنائیں، یونیورسٹی کے تمام اساتذۂ کرام اور شیوخِ عظام دنگ رہ گئے اور بے ساختہ پکار اٹھے کہ ہم نے اپنی زندگی میں کبھی کوئی ایسا عالم نہیں دیکھا۔ نوّر اللّٰه مرقدہ وبرد مضجعہ
ہم مولانا اثری حفظہ اللہ کے شکر گزار ہیں کہ انھوں نے ہمیں اپنے ان ’’مقالات‘‘ میں ہماری ایسی ہی چند عبقری شخصیات کی کہانی سنائی ہے، کیوں کہ نژاد نو کو اس وقت