کتاب: مقالات ارشاد الحق اثری جلد4 - صفحہ 31
رفعتوں سے سرفراز فرما رکھا تھا، اس کا اندازہ درج ذیل دو واقعات سے لگایا جا سکتا ہے، ان دونوں واقعات کے راوی حضرت مولانا محمد یوسف کاظم رحمہ اللہ ہیں، مولانا کاظم رحمہ اللہ حضرت کے ارشد تلامذہ میں سے تھے، انھوں نے جامعہ سلفیہ کے ابتدائی دور میں حضرت کے سامنے زانوئے تلمذ تہ کیے۔ پھر انھیں عالمِ اسلام کی عظیم ترین دانش گاہ الجامعۃ الاسلامیۃ، مدینہ منورہ میں بھی حضرت سے کسبِ فیض کا موقعہ ملا، مولانا کاظم رحمہ اللہ بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد میں مسندِ تدریس پر فائز رہے، یونیورسٹی کی فیکلٹی آف اصول الدین سے بحیثیت ڈین آف فیکلٹی ریٹائر منٹ کے بعد چند سال پہلے اللہ تعالیٰ کو پیارے ہو چکے ہیں، اصول الدین، اسلامی فقہ و قانون اور علم الفرائض میں خصوصی مہارت رکھتے تھے۔ رحمۃ اللّٰه رحمۃ واسعۃ مولانا کاظم رحمہ اللہ نے راقم السطور سے ایک دفعہ بیان فرمایا کہ جن دنوں حضرت محدث گوندلوی رحمہ اللہ سے عرب و عجم کے تشنگانِ علوم جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ میں اپنی علمی تشنگی کی تسکین کا سامان فراہم کر رہے تھے، انہی دنوں جامعہ مدینہ کے بعض بڑے بڑے شیوخ و اساتذہ کرام بھی بعد از نمازِ عصر مسجدِ نبوی میں حضرت کے حلقۂ درس میں شامل ہو کر آپ سے باقاعدہ استفادہ کرتے، جن میں فضیلۃ الشیخ عبدالقادر شیبۃ الحمد اور شیخ عطیہ محمد سالم (جو ان دنوں مدینہ کے قاضی بھی تھے) بطورِ خاص قابلِ ذکر ہیں۔ ایک دن میں نے فضیلۃ الاستاذ شیخ عبدالقادر شیبۃ الحمد سے پوچھا: ’’کَیْفَ وَجَدْتُّمْ الشَّیْخَ الْحَافِظَ؟‘‘ آپ نے الشیخ الحافظ (مدینہ یونیورسٹی میں حضرت محدث گوندلوی رحمہ اللہ کو اسی نام سے پکارا جاتا تھا) کو علمی اعتبار سے کیسے پایا؟ انھوں نے جواب میں فرمایا: ’’وَاللّٰہِ وَجَدْنَاہُ بَحْراً فِيْ کُلِّ الْعُلُوْمِ‘‘ ’’واللہ! ہم نے انھیں تمام علوم میں بحرِ بیکراں کی طرح پایا ہے، ہاں یہ الگ بات ہے کہ ممارست