کتاب: مقالات ارشاد الحق اثری جلد4 - صفحہ 30
کے باوجود یہ شرح سنن ابی داود کی دیگر شروح سے اپنے بہت سے امتیازات و خصوصیات کے باعث نہایت اہمیت کی حامل ہے اور کہیں کہیں تو محدث ڈیانوی رحمہ اللہ کا محدثانہ اسلوب و انداز اجتہادی شان کا حامل ہے۔ مولانا اثری حفظہ اللہ نے اپنے اس فاضلانہ مقالہ میں ایسے کئی ایک مقامات کی نشان دہی بھی فرمائی ہے۔ ہمارے دینی مدارس میں ’’سنن ابی داود‘‘ نہ صرف پڑھنے والے طلبا بلکہ پڑھانے والے اساتذۂ کرام کو بھی اس مقالہ کا مطالعہ ضرور کرنا چاہیے۔ حضرت العلام محدثِ عصر مولانا حافظ محمد صاحب گوندلوی رحمہ اللہ کے تذکرہ میں مولانا اثری حفظہ اللہ نے ۱۹۶۴ء میں ملک کی عظیم ترین دینی دانش گاہ الجامعۃ السلفیۃ میں طلبِ علم کے لیے آنے کا ذکر کیا اور ضمناً شیخ المعقولات حضرت مولانا شریف اللہ خان صاحب رحمہ اللہ اور شیخ المشایخ حضرت مولانا حافظ محمد عبداللہ محدث بڈھیمالوی رحمہ اللہ کا ذکر کیا تو یہ سارے حالات و واقعات آنکھوں کے سامنے گھومتے ہوئے محسوس ہونے لگے، کیوں کہ بندۂ عاجز نے بھی ۱۹۶۱ء سے ۱۹۶۸ء تک کا عرصہ جامعہ ہی میں طلبِ علم میں بسر کیا ہے، مگر آہ! فَانْقَضَتْ تِلْکَ الْأَیَّامُ وَأَھْلُھَا کَأَنَّھَا وَکَأَنَّھُمْ أَحْلَامُ اسلام کا ماضی اس قدر درخشاں اور تابناک ہے کہ مسلمانوں نے اسے دیکھ کر ہمیشہ سر فخر سے اونچا کیا ہے، وہ جب بھی اپنے ماضی پر نگاہ ڈالتے ہیں، انھیں کبھی ندامت محسوس نہیں ہوئی، جس امت میں ہزاروں کے حساب سے محدثین، مفسرین، مورخین، فقہاء اور دیگر علوم و فنون کے ماہرین گزرے ہوں تو وہ اپنے قابلِ رشک ماضی پر فخر کا اظہار کیوں نہ کرے، ایسی ہی قابلِ فخر شخصیات میں حضرت محدث گوندلوی رحمہ اللہ بھی تھے۔ اللہ رب ذوالجلال نے آپ کو علم و فضل کی جن عظمتوں اور