کتاب: مقالات ارشاد الحق اثری جلد4 - صفحہ 29
’’یہ انتہائی تعجب انگیز بات ہے کہ فقہاء مقلدین کو اپنے امام کے ماخذ کے ضعف کا بھی علم ہوتا ہے اور اس کے مداوا کی بھی کوئی صورت نہیں ہوتی، لیکن اس کے باوجود وہ اپنے امام کی تقلید کرتے ہیں اور اپنے امام کی تقلید اور مذہبی جمود کے باعث انھیں کتاب و سنت اور صحیح قیاس کو ترک کر دینے میں کوئی حجاب نہیں ہوتا، بلکہ کتاب و سنت کی واضح نصوص کو ترک کر دینے اور اپنے امام کی طرف سے دفاع کرنے کے لیے عجیب و غریب بعید از قیاس اور باطل تاویلوں سے کام لیتے ہیں۔‘‘[1] بہرحال مولانا اثری حفظہ اللہ نے ٹھوس اور ناقابلِ تردید دلائل سے ثابت کیا ہے کہ علامہ محمد حیات سندھی رحمہ اللہ مقلد نہیں، بلکہ متبع سنت تھے، مولانا کا موقف بالکل بجا ہے، بھلا جس انسان نے اپنے رسالہ ’’تحفۃ الانام في العمل بحدیث النبي صلی اللّٰه علیہ وسلم ‘‘ میں تقلیدِ شخصی کی تردید و ابطال اور اتباعِ سنت کی تائید و حمایت میں نقلی و عقلی دلائل کا انبار لگا دیا ہو، اسے حنفی مقلد کیسے قرار دیا جا سکتا ہے؟! علامہ شمس الحق محدث ڈیانوی رحمہ اللہ بھی قافلۂ سلف کے حدی خواں تھے، وہ بھی خالص کتاب و سنت ہی پر عمل پیرا تھے اور کتاب و سنت کے خلاف کسی بھی امام و مجتہد کے قول کو خاطر میں نہیں لاتے تھے، کتاب و سنت کی سربلندی کے لیے انھوں نے جہاں کتبِ حدیث کے شروح و حواشی لکھے، وہاں انھوں نے بہت سی نادر و نایاب کتبِ حدیث کی طباعت و اشاعت کا بھی اہتمام فرمایا، خود ’’غایۃ المقصود‘‘ کے نام سے سنن ابی داود کی نہایت مبسوط شرح لکھنی شروع کی مگر افسوس کہ وہ پایۂ تکمیل تک نہ پہنچ سکی، تاہم غنیمت ہے کہ ’’عون المعبود‘‘ کے نام سے اس کا اختصار موجود ہے، اختصار
[1] قواعد الاحکام، حجۃ اللہ (۱/۱۵۵)۔