کتاب: مقالات ارشاد الحق اثری جلد4 - صفحہ 28
متعلق یہ قول سننا اور کہنا پسند نہیں کرتے، حالانکہ دونوں کے مابین زمین و آسمان کا فرق ہے۔ یہ حضرات کتبِ حدیث کا مطالعہ اور اس کی تدریس اس لیے نہیں کرتے کہ اس پر عمل کریں بلکہ ان کا مقصدِ وحید یہ ہوتا ہے کہ اپنے امام کے دلائل کا پتا لگائیں جو حدیث ان کے قول کے مخالف ہو اس کی تاویل کریں اور جہاں تاویل نہیں ہو سکتی، وہاں کہہ دیتے ہیں کہ ہمارے امام ہم سے زیادہ عالم تھے، کیا وہ اس بات سے ناواقف ہیں کہ وہ ایسا کرتے ہوئے اللہ کی حجت اپنے اوپر قائم کرتے ہیں۔‘‘
اسی طرح انھوں نے ان کے ایک اور اقتباس کے حوالے سے ثابت کیا ہے کہ وہ تو بڑی دل سوزی کے ساتھ مقلدین کے خیالات و حالات بیان کرتے ہوئے ان کے کردار پر ماتم کرتے ہیں، لہٰذا انھیں معروف معنی میں حنفی کیسے قرار دیا جا سکتا ہے؟
افسوس کہ علامہ سندھی نے مقلدین کے جس کردار کا ماتم کیا، ان کا یہ کردار کبھی ختم نہ ہوا اور ان کے طرزِ عمل میں کبھی فرق نہ آیا۔ مولانا سید سلیمان ندوی رحمہ اللہ نے اپنے مشہور مقالے ’’ہندوستان میں علمِ حدیث‘‘ کے آخر میں مولانا عبدالباری، فرنگی محلی کے بارے میں لکھا ہے:
’’مرحوم کو دراصل فقہ حنفی کے ساتھ والہانہ شغف تھا اور اس کی نادر اور حنفی اماموں کی اصل کتابوں کا بڑا شوق تھا اور ساتھ ہی ایسی حدیثوں کی بھی ان کو بڑی تلاش رہتی تھی، جن سے کسی حنفی مسلک کی تائید ہوتی ہو۔‘‘[1]
بات طول اختیار کرتی جا رہی ہے، لیکن جی چاہتا ہے کہ یہاں سلطان العلماء عز بن عبدالسلام رحمہ اللہ کے اس ارشاد کا بھی حوالہ دے دیا جائے جو انھوں نے مقلدین کے اسی ناگفتہ بہ طرزِ عمل کا شکوہ کرتے ہوئے فرمایا ہے:
[1] مقالاتِ سلیمان، حصہ دوم (ص: ۶۴)۔