کتاب: مقالات ارشاد الحق اثری جلد4 - صفحہ 26
اگر وہ چڑھ جائے تو کہیں کا کہیں پہنچ جاتا ہے۔‘‘ معلوم ہوتا ہے کہ مولانا اثری کی ابتدائی زندگی ہی میں یہ لہر اٹھی جس پر سوار ہو کر وہ علومِ حدیث، اسماء الرجال اور تحقیق و تنقید کے میدان میں اقران سے سبقت لے گئے ہیں، شیکسپیئر نے یہ لہر کی بات اس لیے کی کہ اس نے قرآن مجید نہیں پڑھا تھا، ورنہ اسے معلوم ہوتا کہ یہ تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے موہبتِ عظمیٰ اور عطیۂ کبریٰ ہوتا ہے جس سے وہ اپنے خاص بندوں کو نوازتا ہے، ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ﴿ثُمَّ أَوْرَثْنَا الْكِتَابَ الَّذِينَ اصْطَفَيْنَا مِنْ عِبَادِنَا﴾ [فاطر: ۳۲] ’’پھر ہم نے ان لوگوں کو کتاب کا وارث بنایا جنھیں ہم نے اپنے بندوں میں سے چن لیا تھا۔‘‘ قرآن مجید کے ایک دوسرے مقام پر اس حقیقت کی اس طرح نقاب کشائی کی گئی ہے: ﴿وَالَّذِينَ جَاهَدُوا فِينَا لَنَهْدِيَنَّهُمْ سُبُلَنَا وَإِنَّ اللّٰهَ لَمَعَ الْمُحْسِنِينَ ﴾ [العنكبوت: 69] ’’اور جن لوگوں نے ہماری راہ میں کوشش کی ہم انھیں ضرور اپنے رستے دکھا دیں گے اور یقینا اللہ تعالیٰ تو نیکوکاروں کے ساتھ ہے۔‘‘ یعنی جو لوگ محنت کرتے اور اپنے علم کے مطابق عمل کرتے ہیں تو اللہ تعالیٰ انھیں شرح صدر عطا فرما دیتے ہیں، ان پر علم کے دروازے کھول دیتے ہیں اور ایسی باتوں کی طرف راہنمائی فرما دیتے ہیں، جن کا انھیں علم نہیں ہوتا۔ ﴿ذَلِكَ فَضْلُ اللّٰهِ يُؤْتِيهِ مَنْ يَشَاءُ ﴾ مولانا اثری حفظہ اللہ نے اپنے ان مقالات میں درج ذیل شخصیات کو موضوعِ سخن