کتاب: مقالات ارشاد الحق اثری جلد4 - صفحہ 24
خلوص اور بے پناہ خوف و خشیتِ الٰہی کی وجہ سے کیا گیا ہے۔ حقیقی اور سچے علما کے خوف و خشیت کی شہادت دیتے ہوئے خود اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:
﴿ إِنَّمَا يَخْشَى اللّٰهَ مِنْ عِبَادِهِ الْعُلَمَاءُ إِنَّ اللّٰهَ عَزِيزٌ غَفُورٌ ﴾[الفاطر: ۲۸]
’’اللہ سے ڈرتے تو بس وہی بندے ہیں جو علم والے ہیں، بے شک اللہ زبردست ہے، بڑا مغفرت والا ہے۔‘‘
ایسے علما کو جن کے دل حبِ الٰہی سے آباد ہوں، جن کی زندگی تقویٰ اور خوف و خشیتِ الٰہی سے عبارت ہو اور جنھوں نے علم اور عمل کے مابین حائل دیواروں کو گرا دیا ہو، انھیں دوسرے لوگوں سے ممتاز کرتے ہوئے فرمایا:
﴿ قُلْ هَلْ يَسْتَوِي الَّذِينَ يَعْلَمُونَ وَالَّذِينَ لَا يَعْلَمُونَ إِنَّمَا يَتَذَكَّرُ أُولُو الْأَلْبَابِ ﴾[الزمر: 9]
’’آپ کہیے کہ کیا علم والے اور بے علم کہیں برابر بھی ہو سکتے ہیں؟ نصیحت تو بس وہی حاصل کرتے ہیں جو عقل والے ہیں۔‘‘
اسی طرح بہت سی احادیثِ مبارکہ میں بھی علما کی فضیلت اور ان کے مقام و مرتبہ کی رفعت کو بیان کیا گیا ہے، مثلاً رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشادِ گرامی ہے:
(( مَنْ یُّرِدِ اللّٰہُ بِہٖ خَیْراً یُفَقِّھْہُ فِيْ الدِّیْنِ، وَإِنَّمَا أَنَا قَاسِمٌ وَاللّٰہُ یُعْطِيْ ۔۔۔ الحدیث )) (صحیح البخاري: ۷۱)
’’جس شخص کے ساتھ اللہ تعالیٰ خیر و بھلائی کا ارادہ کرتے ہیں، اسے دین میں فقاہت عطا فرما دیتے ہیں، میں تو تقسیم کرنے والا ہوں، جب کہ (علم) عطا فرمانے والا تو اللہ ہی ہے۔‘‘