کتاب: مقالات ارشاد الحق اثری جلد4 - صفحہ 23
کا نور ہے، وہ انہی کی کوششوں کا نتیجہ ہے، انہی کے دم قدم سے کرن کرن اجالا ہوا، انہی کی کوششوں سے انسانیت کو اس کا اصل مقام و مرتبہ ملا، انہی کی کاوشوں سے دلوں کی دنیا آباد ہوئی اور انہی کی برکتوں سے تباہ حال انسانیت شادکام ہوئی۔ یہ حضرات انبیائے کرام علیہم السلام ہی کی مقدس تعلیمات تھیں، جن سے عقائد کی اصلاح ہوئی، اعمال میں نکھار پیدا ہوا، اوہام اور خیالاتِ فاسدہ کی بیڑیاں کٹ گئیں، ہدایت کا نظام قائم ہوا، معاشرے امن، چین اور سکون کا گہوارہ بن گئے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ شیطانی پگڈنڈیوں پر ٹامک ٹوئیے مارتے ہوئے انسانوں کا اپنے رب تعالیٰ سے تعلق قائم ہو گیا۔ تمام انبیائے کرام علیہم السلام اپنے اپنے دور اور اپنے اپنے علاقے کے لوگوں کے لیے راہنما اور مشعلِ راہ تھے، جب کہ عالمگیر اور دائمی نمونۂ عمل اور اسوۂ حسنہ صرف سید الاولین والآخرین، سرورِ دنیا و دیں، رحمۃ للعالمین حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ گرامی ہے۔ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم خاتم النبیین ہیں، آپ کی ذاتِ اقدس سے قصرِ نبوت و رسالت کی تکمیل ہو گئی، آپ کے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا، لہٰذا حضرات علما کو انبیائے کرام علیہم السلام کا وارث قرار دے دیا گیا۔ خود اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں علمائے کرام کے رفعِ درجات کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا: ﴿ يَرْفَعِ اللّٰهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنْكُمْ وَالَّذِينَ أُوتُوا الْعِلْمَ دَرَجَاتٍ ﴾[المجادلۃ: ۱۱] ’’اللہ تم میں ایمان والوں کے اور ان کے جنھیں علم عطا ہوا ہے درجے بلند کرے گا۔‘‘ اہلِ ایمان و اہلِ علم سے درجات کی سربلندی کا یہ وعدہ ان کے حد درجہ