کتاب: مقالاتِ اثریہ - صفحہ 99
زیادہ ضعیف ہونے کی صورت میں متابعت بالکل سود مند نہ ہوگی، برابری کی صورت میں متابعت اسے تقویت پہنچائے گی، مگر وہ قوت اسے ضعیف کے درجے سے باہر نہیں نکال سکے گی، بلکہ ضعیف بھی مختلف ہوتے ہیں، اکیلا ضعیف ایسے ضعیف سے زیادہ ضعیف ہوگا جس کا متابع ہوگا، ان دونوں میں سے کسی سے احتجاج نہیں کیا جائے گا، اس کا اثر ترجیح میں ظاہر ہوگا۔
اگر متابع پہلے راوی (متابَع) سے اقوی (کم ضعیف) ہو، اگر اس کی متابعت پہلی سند کے ضعیف راوی کے بارے میں شبہ زائل کر دے تو کوئی مانع نہیں اسے حسن (لغیرہ) کہا جائے۔‘‘ النکت للزرکشي (ص: ۱۰۴)
19 امام ابن عبدالہادی ۷۴۴ھ:
’’ان میں سے کوئی سند بھی تنقید سے خالی نہیں، لیکن یہ بات ظاہر ہے کہ اس بابت حدیث اپنی مجموعی سندوں کے اعتبار سے حسن یا صحیح ہے۔‘‘
(تعلیقۃ علی العلل لابن أبي حاتم، ص: ۱۴۴)
20. حافظ ذہبی ۷۴۸ھ:
امام بیہقی رحمہ اللہ نے حدیث: ’’الفخذ عورۃ‘‘ ذکر کی، پھر فرمایا: ’’وھذہ أسانید صحیحۃ‘‘ حافظ ذہبی رحمہ اللہ ان کی تردید میں فرماتے ہیں:
’’یہ صحت تک نہیں پہنچتی، بلکہ بعض کے بعض سے ملنے پر حجت کے قابل ہوجاتی ہیں۔‘‘ (تھذیب السنن الکبیر للذھبي: ۲/ ۶۶۷، حدیث: ۲۸۶۸)
’’اس بابت کمزور احادیث ہیں جو ایک دوسرے کو تقویت دیتی ہیں کیونکہ ان کے راویان میں متہم بالکذب کوئی نہیں۔ واللہ اعلم‘‘
(تاریخ الاسلام [حوادث و وفیات ۱۷۱۔۱۸۰ھ] ص: ۲۱۲۔۲۱۳)