کتاب: مقالاتِ اثریہ - صفحہ 98
دوسرے مقام پر وضو سے پہلے بسم اللہ پڑھنے کی بابت فرماتے ہیں:
’’یہ (ضعف) اس کے حسن ہونے کی نفی نہیں کرتا اور حسن (لغیرہ) حجت ہے... اس کی کئی سندیں ہیں، بہ کثرت اس کے مراجع ہیں، جس کی بنا پر بعض بعض کی تائید کرتا ہے، ظنِ غالب ہے کہ اس حدیث کی اصل ہے... مرسل حدیث پر جب جمہور اہلِ علم عمل کریں، یا ایک مرسل کے راوی دوسری مرسل سے مختلف ہوں، یا اس جیسے فتاویٰ صحابہ ہوں، یا قرآن کا ظاہر اس کی موافقت کرے تو وہ حجت ہے اور یہ حدیث ’’التسمیۃ قبل الوضوء‘‘ کئی اسباب کی بنا پر تقویت حاصل کرتی ہے۔۔۔ اور اس کی کئی مختلف سندیں ہیں، بعض مسند ہیں اور بعض مرسل۔‘‘شرح العمدۃ لابن تیمیۃ (۱/ ۱۷۰ ۔۱۷۲ ۔بتصرف)
نیز فرمایا:
’’بسا اوقات محدثین کے ہاں کوئی راوی بہ کثرت اغلاط کی وجہ سے ضعیف ہوتا ہے، اس کی حدیث میں صحت غالب ہوتی ہے کیونکہ اس کی متابعت یا تقویت ہوتی ہے، متعدد اور بہ کثرت سندوں سے بعض بعض کا مؤید ہوتا ہے، یہاں تک کہ بسا اوقات ان (اسانید) سے علم کا حصول بھی ممکن ہوتا ہے۔‘‘ مجموع الفتاویٰ (۱۸/ ۲۶)
18. ابن سید الناس ۷۳۴ھ:
موصوف فرماتے ہیں:
’’اس مسئلہ میں انصاف یہ ہے کہ کہا جائے: متابع ضعف میں پہلے راوی (متابَع) کے برابر ہوگا یا اس سے زیادہ ضعیف ہوگا یا اس سے کم ضعیف ہوگا۔