کتاب: مقالاتِ اثریہ - صفحہ 97
آٹھویں صدی ہجری 16. حافظ ابن دقیق العید ۷۰۲ھ: مجتہد امام تقی الدین محمد بن علی ابن دقیق العید رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’معلوم شد کہ کسی چیز پر راویان کا ایک دوسرے کی مدد کرنا اور حدیث میں باہم تائید کرنا اس حدیث کو مضبوط بناتا اور تقویت پہنچاتا ہے، بسا اوقات ایسی حدیث کو حسن کے ساتھ ملایا جاتا ہے اور اس سے استدلال کیا جاتا ہے۔‘‘شرح الإلمام بأحادیث الأحکام لابن دقیق العید (۴/ ۲۴۷) حافظ زرکشی رحمہ اللہ نے بھی امام ابن دقیق العید رحمہ اللہ کا یہ قول نقل کیا ہے۔النکت (ص: ۱۰۵) 17. شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ ۷۲۸ھ: موصوف فرماتے ہیں: ’’ان (عمر بن ابی سلمۃ اور ابو صالح باذام) جیسے راویان کی حدیث حسن ہوتی ہے، جمہور علماء اس سے استدلال کرتے ہیں، یہ حدیث: ’’لعن زائرات القبور‘‘ دو مختلف سندوں سے مروی ہے، ایک حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے ہے، جبکہ دوسری حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے، پہلی سند کے راوی دوسری سند سے مختلف ہیں کہ اس حدیث کو ایک نے دوسرے سے نہیں سیکھا، ان میں ایسے راوی نہیں جن پر جھوٹ کا الزام ہو، سوءِحفظ کی بنا پر انھیں ضعیف گردانا گیا ہے اور اس جیسی حدیث بلاشبہ دلیل ہوتی ہے۔‘‘ مجموع الفتاویٰ (۲۴/ ۳۵۱)