کتاب: مقالاتِ اثریہ - صفحہ 92
معارض نہ ہو تو ہم اسے قبول کرتے ہیں۔‘‘ معرفۃ السنن والآثار (۱/ ۲۲۹، تحقیق: سید کسروی حسن)
3. ’’حدیث کو بیان کرنے میں سيء الحفظ منفرد ہو تو ہم اس سے حجت نہیں پکڑتے، مگر اس کی حدیث ہمارے ذکر کردہ سابقہ شواہد کے ملنے سے حسن (لغیرہ) بن جاتی ہے، جیسا کہ امام شافعی رحمہ اللہ کا قول ہے۔‘‘معرفۃ السنن والآثار (۴/ ۴۹)
4. ’’ابراہیم کی عبداللہ سے روایت منقطع ہونے میں کوئی شک نہیں، مگر وہ مراسیل ہیں، جب بعض بعض کی تائید کرتے ہیں تو ہم اسی موقف کو اپناتے ہیں۔‘‘ السنن الصغیر (۳/ ۲۳۵، حدیث: ۲۴۰۱)
5. ’’یہ دونوں سندیں اگرچہ ضعیف ہیں، مگر ایک دوسرے کی تائید کرتی ہیں۔ اور دلالت کرتی ہیں کہ اس حدیث کی جعفر سے اصل ہے۔‘‘
(دلائل النبوۃ: ۷/ ۲۶۹)
6. ’’جب اس مرسل حدیث میں صحابی کا قول مل جائے تو امام شافعی کے ہاں وہ حجت ہے۔‘‘ (معرفۃ السنن: ۳/ ۴۸۵)
علاوۂ ازیں محدث بیہقی رحمہ اللہ بہت ساری احادیث کو مختلف عواضد کی بنا پر تقویت پہنچاتے ہیں، ذیل میں کچھ صورتیں مجمل طور پر ذکر کی جاتی ہیں۔
7. بعض ضعیف احادیث بعض کو تقویت دیتی ہیں۔
(السنن الکبری: ۲/ ۴۱۶، ۴/ ۱۶۱، ۶/ ۶۵، معرفۃ السنن والآثار: ۲/ ۲۷۹، ۴/ ۴۸۵)، ۶/ ۱۹۰، دلائل النبوۃ: ۶/ ۴۹۵، ۷/ ۲۶۹، السنن الصغیر: ۳/ ۲۳۵، حدیث: ۲۴۰۱، مناقب الشافعي للبیھقي: ۱/ ۲۷)
8. کبھی فرماتے ہیں: اس ضعیف حدیث کو شواہد تقویت دیتے ہیں۔(السنن الکبری: ۳/ ۱۶۴، ۳۴۸، ۶/ ۲۲۰، معرفۃ السنن: ۴/ ۴۹، دلائل النبوۃ: ۶/ ۴۳۸)
9. صحیح شواہد اسے تقویت دیتے ہیں۔ (السنن الکبری: ۲/ ۳۷۸)