کتاب: مقالاتِ اثریہ - صفحہ 91
’’وإذا کثرت الروایات في الحدیث ظھر أن للحدیث أصلاً‘‘ (المستدرک: ۲/ ۴۲۶) ’’جب کسی حدیث کی بہ کثرت سندیں ہوں تو اس حدیث کی اصل ظاہر ہوجاتی ہے۔‘‘ 9. امام بیہقی ۴۵۸ھ: امام ترمذی رحمہ اللہ کے بعد امام بیہقی رحمہ اللہ نے ضعیف+ ضعیف کو تقویت دینے میں بڑی وسعت کا مظاہرہ کیا ہے۔ 1. موصوف کبار تابعین کی مرسل روایت کے حجت ہونے پر رقمطراز ہیں: ’’مرسل بیان کرنے والا کبار تابعین میں سے ہو، جب وہ اس شخص کا نام ذکر کرے جس سے حدیث سنی ہوتی ہے تو وہ ایسے لوگ ہوں جو عادل ہوں، ان کی خبر پر اعتماد کیا جاتا ہو، ان اوصاف کا حامل راوی جب مرسل حدیث بیان کرے تو اس کی مرسل حدیث کو دیکھا جائے گا کہ کوئی دوسرا اس کا مؤید ہے؟ یا کسی صحابی کا قول (فتویٰ) اس کی تائید کرتا ہے؟ یا اس کی طرف عام اہلِ علم گئے ہیں؟ ان تینوں قرائن میں سے ایک قرینہ بھی اس کی تائید کرے تو ہم احکامِ شرعیہ میں اس کی مرسل روایت قبول کرتے ہیں۔‘‘ دلائل النبوۃ (۱/ ۳۹۔ مقدمہ) 2. امام بیہقی رحمہ اللہ رقمطراز ہیں: ’’منقطع جب منفرد ہو تو ہم اس کی حجیت کے قائل نہیں، جب اس کے ساتھ کوئی اور (ضعیف) روایت مل جائے، یا اس کے ساتھ کسی صحابی کا قول مل جائے یا مراسیل اس کی تاکید کریں اور اپنے سے اقوی کے