کتاب: مقالاتِ اثریہ - صفحہ 87
الأحکام الوسطی (۲/ ۱۰۶)
امام ابن القطان رحمہ اللہ نے ان کی موافقت کی ہے۔ بیان الوھم (۳/ ۱۰۸)
راجح یہ ہے کہ اس حدیث کی سند سہل بن معاذ کی وجہ سے ضعیف ہے، مگر یہ حدیث اپنے ایک یا دو ضعیف شواہد کی وجہ سے حسن لغیرہ ہے۔
شواہد کے ذکر سے قبل یہ تنبیہ ضروری ہے کہ محدث البانی رحمہ اللہ نے اس حدیث کی سند کو حسن قرار دیا ہے اور ابو مرحوم عبدالرحیم بن میمون پر کلام کیا ہے کہ وہ مختلف فیہ راوی ہے، حالانکہ اس سند کا ضعف سہل بن معاذ کی وجہ سے ہے، جس کی طرف امام البانی رحمہ اللہ کی نظر نہ جا سکی۔
پہلا ضعیف شاہد:
اس ضعیف حدیث کا شاہد ’’عمرو بن شعیب عن أبیہ عن جدہ‘‘ موجود ہے، جسے امام ابن ماجہ (۱۱۳۴) نے ذکر کیا ہے۔
مگر صاحب الزوائد حافظ بوصیری رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’یہ سند ضعیف ہے، بقیہ بن ولید مدلس ہے، اگر اس کا استاد الہروی ہے تو اس کی توثیق کی گئی ہے ورنہ وہ مجہول ہے۔‘‘مصباح الزجاجۃ (۱/ ۲۱۴، حدیث: ۴۰۹)
الغرض یہ حدیث بھی ضعیف ہے۔
دوسرا ضعیف شاہد:
الکامل لابن عدی (۴/ ۱۵۰۵) میں اس کی دوسری مؤید حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ کی حدیث ہے، مگر اس کے راوی عبداللہ بن میمون القداح کو امام بخاری رحمہ اللہ نے ذاہب الحدیث قرار دیا ہے۔ التاریخ الکبیر (۵/ ۲۰۶)