کتاب: مقالاتِ اثریہ - صفحہ 86
’’انتہائی زیادہ منکر الحدیث ہے، مجھے معلوم نہیں حدیث میں تخلیط اس سے ہوئی ہے یا زبان بن فائد سے۔ بہر حال جو بھی ان دونوں میں سے احادیث بیان کرتا ہے وہ ساقط ہے۔‘‘ المجروحین (۱/ ۳۴۷)
حافظ عجلی رحمہ اللہ نے اسے ثقہ قرار دیا ہے۔ معرفۃ الثقات والضعفاء (۱/ ۴۴۰)
امام عبدالحق اشبیلی رحمہ اللہ نے اس کی حدیث کے بارے میں فرمایا ہے:
’’إسنادہ ضعیف‘‘ الأحکام الوسطی (۲/ ۱۰۶)
امام ابن القطان رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’سھل ضعیف‘‘ بیان الوھم والإیھام (۳/ ۱۰۸، ۴/ ۱۷۱)
امام ہیثمی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’فیہ ضعف‘‘ مجمع الزوائد (۸/ ۱۰۷)
حافظ زیلعی رحمہ اللہ نے بھی اسے ضعیف قرار دیا ہے۔ نصب الرایۃ (۲/ ۸۷)
حدیث کا حکم:
امام ترمذی رحمہ اللہ نے اسے حسن قرار دیا ہے، امام حاکم رحمہ اللہ نے صحیح قرار دیا ہے۔ المستدرک (۱/ ۲۸۹) محدث البانی رحمہ اللہ نے اسے حسن قرار دیا ہے۔تحقیق سنن أبي داود (۴/ ۲۷۳۔۲۷۴)
امام ابن المنذر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’اس بارے میں ایک مرفوع حدیث مروی ہے، جسے ہمارے بعض اصحاب نے بطورِ دلیل پیش کی ہے، اس کی سند متکلم فیہ ہے، میرے نزدیک وہ ثابت نہیں کیونکہ اس کی سند مجہول ہے۔‘‘الأوسط (۴/ ۹۰، حدیث: ۱۸۱۳)
امام عبدالحق اشبیلی رحمہ اللہ نے إسنادہ ضعیف کہا ہے۔