کتاب: مقالاتِ اثریہ - صفحہ 83
حسن إسنادہ عندنا: کل حدیث یروی لا یکون في إسنادہ من یتھم بالکذب، ولا یکون الحدیث شاذاً، ویروی من غیر وجہ نحو ذلک، فھو عندنا حدیث حسن‘‘ ’’ہم نے اس کتاب میں ’’حدیث حسن‘‘ کی اصطلاح استعمال کی ہے، اس سے ہماری مراد یہ ہے کہ اس کی سند ہمارے نزدیک حسن ہے اور وہ حدیث جس کی سند میں ایسا راوی نہ ہو جس پر جھوٹ کا الزام ہو۔ حدیث شاذ نہ ہو۔ اور وہ اپنے جیسی دوسری سند سے مروی ہو، وہ ہمارے نزدیک حسن ہے۔‘‘ العلل الصغیر للترمذي (ص: ۸۹۸، المطبوع بآخر جامع الترمذي) اس تعریف کا مصداق کیا ہے؟ محدثین نے اس پر خوب تحقیق پیش کی ہے، مصطلح کی کتب ان سے معمور ہیں، ہم اس سے صرفِ نظر کرتے ہوئے صرف یہ عرض کرنا چاہتے ہیں کہ امام ترمذی رحمہ اللہ ضعیف حدیث+ ضعیف حدیث کی تقویت اور حجیت کے قائل ہیں۔ حافظ برہان الدین بقاعی رحمہ اللہ ۸۸۵ھ اپنے شیخ (حافظ ابن حجر رحمہ اللہ ) سے نقل کرتے ہیں کہ امام ترمذی رحمہ اللہ نے حسن لغیرہ کو متعارف کروایا ہے۔ النکت الوفیۃ للبقاعي (۱/ ۲۲۴) امام ابن سید الناس رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ترمذی جس حدیث کو متعدد اسانید کی بنا پر حسن قرار دیتے ہیں وہ حسن لغیرہ ہے۔ النکت الوفیۃ (۱/ ۲۲۹) حافظ بقاعی رحمہ اللہ نے اس موقف کی تائید کی ہے۔ النکت الوفیۃ (۱/ ۲۳۴) امام ترمذی رحمہ اللہ ایسی حدیث کو بھی حسن کہتے ہیں جو حسن لغیرہ سے زیادہ مضبوط ہوتی ہیں، مثلاً اس کی ذاتی سند مضبوط ہوتی ہے یا کوئی قوی متابع موجود