کتاب: مقالاتِ اثریہ - صفحہ 82
اس آخری (چوتھی) قسم کے بارے میں ان کے الفاظ ہیں: ’’ثم یلیہ ما کان إسنادہ صالحاً، وقبلہ العلماء لمجیئہ من وجھین لیّنَیْنِ فصاعداً، یعضد کل إسناد منھما الآخر‘‘ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ بھی ’’سکوت ابی داود‘‘ پر بحث کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’یہاں واضح ہوگیا کہ وہ سبھی احادیث جن پر ابو داود نے سکوت کیا ہے وہ حسن اصطلاحی کی قسم سے نہیں، بلکہ اس کی متعدد قسمیں ہیں: 1۔ بعض احادیث صحیحین میں ہیں۔ یا ان کی شرطِ صحیح پر ہیں۔ 2۔ ان میں سے بعض حسن لذاتہ ہیں۔ 3۔ بعض وہ ہیں جو تقویت کی بنا پر حسن (لغیرہ) بنتی ہیں۔ یہ (آخری) دو اقسام اس کتاب میں بہت زیادہ ہیں: 4۔ بعض ضعیف (احادیث) بھی ہیں۔ مگر ان راویان کی احادیث ہیں جن کے متروک ہونے پر غالباً اجماع نہیں ہے۔ یہ سبھی اقسام ان (ابو داود) کے ہاں لائقِ احتجاج ہیں۔‘‘النکت لابن حجر (۱/ ۴۳۵) ان دو با خبر محدثین کی آرا سے معلوم ہوا کہ سنن ابی داود میں حسن لغیرہ روایات بھی ہیں۔ حافظ ذہبی صاحبِ استقرائے تام ہیں اور حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کی معرفتِ حدیث کسی ابتدائی طالبِ حدیث پر بھی مخفی نہیں، گویا حسن لغیرہ امام ابو داود رحمہ اللہ کے نزدیک حجت ہے، جیسا کہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے صراحت کی ہے۔ 6. امام ترمذی ۲۷۹ھ: حسن کو متعارف کروانے والے موصوف ہیں، وہ فرماتے ہیں: ’’وما ذکرنا في ھذا الکتاب حدیث حسن، فإنما أردنا بہ