کتاب: مقالاتِ اثریہ - صفحہ 81
یقنع بروایاتہ۔ وشد أرکانہ المراسیل بالطرق المقبولۃ عند ذوي الاختیار، استعمل، واکتفی بہ، وھذا إذا لم یعارض بالمسند الذي ھو أقوی منہ‘‘ (جامع العلوم والحکم لابن رجب، ص: ۶۳۳، تحت حدیث: ۳۲) ’’جب مسند حدیث کا راوی ایسا ہو جس پر قناعت نہیں کی جاسکتی، یعنی اس کی احادیث پر کلی اعتماد نہیں کیا جا سکتا، اس کے ارکان کو مراسیل ایسی سندوں سے مستحکم کریں، جنھیں چیدہ علماء کے ہاں قبول کیا جاتا ہو، ایسی روایت کو استعمال کیا جائے گا اور اس پر اکتفا کیا جائے گا، یہ تبھی ہوگا جب وہ (ضعیف روایت) اپنے سے اقوی مسند روایت کے معارض نہ ہو۔‘‘ امام جوزجانی رحمہ اللہ کی ان دونوں نصوص سے معلوم ہوا کہ وہ حسن لغیرہ کی حجیت کے قائل ہیں۔ 5. امام ابو داود ۲۷۵ھ: امام ذہبی رحمہ اللہ سنن ابی داود کی احادیث کے حوالے سے رقمطراز ہیں: ’’a.ابو داود کی کتاب میں سب سے عمدہ اور ثابت شدہ وہ احادیث ہیں، جنھیں شیخین نے بیان کیا ہے، یہ تقریباً نصف کتاب ہے۔b.پھر وہ ہیں جنھیں امام بخاری رحمہ اللہ یا امام مسلم رحمہ اللہ نے بیان کیا ہے۔c. پھر وہ ہیں جن سے ان دونوں نے بے رغبتی کی ہے، ان کی سندیں جید ہیں، علت اور شذوذ سے محفوظ ہیں۔d. پھر وہ ہیں جن کی اسناد صالح ہیں، علماء نے انھیں اس لیے قبول کیا ہے کہ اس کی دو یا اس سے زائد کمزور سندیں ہیں، ہر ایک سند دوسری کو تقویت دیتی ہے۔۔۔۔‘‘ (سیر أعلام النبلاء: ۱۳/ ۲۱۴)