کتاب: مقالاتِ اثریہ - صفحہ 80
2. امام احمد ۲۴۱ھ: انھوں نے حکیم بن جبیر کو ضعیف کہا ہے۔ اس کی روایت حسن قرار دی ہے۔ ملاحظہ کیجیے: عنوان ’’امام احمد کے نزدیک حسن لغیرہ کی حجیت۔‘‘ 3. امام بخاری ۲۵۶ھ: انھوں نے شریک راوی کو ضعیف قرار دیا ہے۔ دوسری سند سے اس حدیث کو حسن کہا ہے۔ حالانکہ دوسری سند بھی ضعیف ہے۔ تفصیل کے لیے عنوان ’’امام بخاری کے ہاں حسن لغیرہ کی حجیت‘‘۔ ملاحظہ فرمائیں۔ 4. امام جوزجانی ۲۵۹ھ: موصوف فرماتے ہیں: ’’ومنھم الضعیف في حدیثہ، غیر سائغ لذي دین أن یحتج بحدیثہ وحدہ، إلا أن یقویہ حدیث من ھو أقوی منہ، فحینئذ یعتبر بہ‘‘ (مقدمۃ أحوال الرجال للجوزجاني، ص: ۳۳) ’’بعض راویانِ حدیث ضعیف ہیں، کسی دین دار کے لیے روا نہیں کہ اس اکیلے کی روایت سے استدلال کرے، مگر جب اس سے اقوی (ضعف میں کم) کی حدیث اس کی مؤید ہو تب اس کا اعتبار کیا جائے گا۔‘‘ اس کلام سے واضح ہوا کہ ضعیف راوی کی حدیث سے احتجاج نہیں کیا جائے گا، جب اس سے اقوی کی حدیث اس کی مؤید ہو تو وہ درجۂ اعتبار میں آجائے گی۔ گویا اس کا ضعف خفیف ہوجائے گا، کسی متابع یا شاہد سے وہ درجۂ احتجاج میں چلی جائے گی، جیسا کہ امام جوزجانی رحمہ اللہ کا دوسرا قول ہی اس کی تائید کرتا ہے: ’’إذا کان الحدیث المسند من رجل غیر مقنع ۔یعني: لا