کتاب: مقالاتِ اثریہ - صفحہ 77
امام دارقطنی رحمہ اللہ ابن لہیعہ کے بارے میں فرماتے ہیں:
’’یعتبر بما یروي عنہ العبادلۃ: ابن المبارک، والمقریٔ، وابن وھب‘‘ (الضعفاء والمتروکین للدارقطني، ص: ۲۶۵، ترجمہ: ۳۲۲)
’’جو حدیث اس سے عبادلہ روایت کریں اس کا اعتبار کیا جائے گا، عبداللہ بن مبارک، عبداللہ بن یزید المقریٔ، عبداللہ بن وہب القرشی۔‘‘
امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ نضر بن اسماعیل ابو المغیرہ کے بارے میں فرماتے ہیں:
’’قد کتبنا عنہ، لیس ھو بقوي، یعتبر بحدیثہ، ولکن ما کان من رقائق‘‘(العلل و معرفۃ الرجال، ص: ۱۲۸، فقرۃ: ۲۱۸ ۔روایۃ المروذي و صالح والمیموني)
’’ہم نے اس کی احادیث لکھی ہیں، وہ قوی نہیں۔ اس کی اس حدیث کا اعتبار کیا جائے گا جس کا تعلق رقائق (مواعظ، فضائل وغیرہ) سے ہو۔‘‘
ان اقوال سے معلوم ہوا کہ محدثین کے ہاں راویان کا ضعف یکساں نہ تھا، کچھ کا تعلق اس طبقہ سے تھا جن کی مرویات کتابت کے قابل ہیں، بعض کا تعلق اس طبقے سے تھا جن کی روایات کی تصدیق کے لیے متابعت کی تلاش ضروری تھی، بعض ایسے تھے جن کی متابعت انھیں کوئی فائدہ نہیں پہنچا سکتی۔ حافظ سخاوی رحمہ اللہ نے بھی انتہائی بسط سے ایسے راویان کے اوصاف ذکر کیے ہیں۔
امام سخاوی کے ہاں قابلِ اعتبار راوی کے اوصاف:
امام سخاوی رحمہ اللہ نے جرح کے چھ مراتب ذکر کیے ہیں اور ان میں سے پہلے چار کے بارے میں فرماتے ہیں:
’’والحکم في المراتب الأربع الأول: أنہ لا یحتج بواحد من أھلھا ولا یستشھد بہ ولا یعتبر بہ۔۔۔ وما عدا الأربع