کتاب: مقالاتِ اثریہ - صفحہ 72
آئندہ آئے گا، مگر حافظ ابن الصلاح رحمہ اللہ اور حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کے کلام میں مطلق مرسل روایت کا ذکر ہے۔
مقدمۃ ابن الصلاح (ص:۳۰، ۳۱)، نزھۃ النظر (ص: ۹۱) نیز ملاحظہ ہو: الحدیث المرسل بین القبول والرد، تألیف: حفصۃ بنت عبد العزیز الصغیر۔
4. معضل:
یعنی ایسی سند جس میں دو یا اس سے زائد راوی ایک ہی مقام سے ساقط ہوں، امام جورقانی رحمہ اللہ اپنی سند سے امام عبدالرحمن بن مہدی رحمہ اللہ سے صحیح حدیث کی شروط نقل کرتے ہیں:
’’وہ حدیث مرسل نہ ہو، کیونکہ ہمارے ہاں مرسل سے حجت قائم نہیں ہوتی۔ حدیث منقطع نہ ہو، کیونکہ ہمارے نزدیک منقطع کی حالت مرسل سے زیادہ بری ہے۔ وہ حدیث معضل نہ ہو، کیونکہ ہمارے ہاں معضل، منقطع سے بھی زیادہ بری حالت میں ہے۔مقدمۃ کتاب الأباطیل والمناکیر والصحاح والمشاہیر (۱/ ۲۱)
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے بھی یہ قول النکت (۲/ ۵۸۱) میں ذکر کیا ہے۔
5. تلقین قبول کرنے والا:
تلقین کے معنی ہیں راوی کو کوئی چیز بتائی جاتی ہے اور وہ اسے یہ امتیاز کیے بغیر بیان کرتا ہے کہ یہ حدیث میری ہے یا نہیں۔ جو راوی لقمہ قبول کرتا ہے اس سے یہ اندیشہ ہوتا ہے کہ وہ ایسی حدیث بیان نہ کردے جو اس کی نہیں۔
محدث معلمی یمانی رحمہ اللہ نے بھی بعض ایسے راویان کی حدیث شواہد میں قبول نہیں کی۔ ملاحظہ ہو: ’’التعلیق علی الفوائد المجموعۃ (ص: ۴۰۸، ۴۸۲) امام ابن حبان رحمہ اللہ کے کلام سے بھی یہی مترشح ہوتا ہے۔ (المجروحین: ۱/ ۶۸۔۶۹)