کتاب: مقالاتِ اثریہ - صفحہ 71
کا رجحان تو اس کے عدم کی طرف ہے۔
بسااوقات یہ مبہم راوی شیطان بھی ہوسکتا ہے، حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
’’شیطان انسانی صورت اختیار کر کے لوگوں کے پاس آکر جھوٹی حدیث بیان کرتا ہے، پھر لوگ منتشر ہوجاتے ہیں، ان میں سے کوئی شخص کہتا ہے: میں نے کسی آدمی سے حدیث سُنی ہے، مجھے اس کے چہرے کی شناسائی ہے مگر اس کا نام معلوم نہیں۔‘‘مقدمہ صحیح مسلم (حدیث: ۱۷، طبع دار السلام)
لہٰذا مبہم راوی کی حدیث سے استشہاد کرنے سے گریز کیا جائے، کیونکہ وہ مجہول الحال تو کیا مجہول العین سے بھی نچلے طبقے کا راوی ہے۔
2. مجہول العین:
ایسا راوی جس کا ایک شاگرد ہو اور اس کے بارے میں کوئی معتبر توثیق نہ ہو، یعنی صرف حافظ ابن حبان رحمہ اللہ نے اسے الثقات میں ذکر کیا ہو۔
امام ابن الوزیر الیمانی الصنعانی ۸۴۰ھ مطلق طور پر مجہول راوی کے بارے میں فرماتے ہیں:
’’وأما المجھول فلیس یقوي حدیثہ بمتابعۃ مثلہ‘‘توضیح الأفکار (۱/ ۱۹۰)
’’رہا مجہول راوی، اس کی حدیث اس جیسے مجہول کی تائید سے تقویت حاصل نہیں کرتی۔‘‘
3. صغار تابعین کی مرسل:
امام شافعی رحمہ اللہ کبار تابعین کی مراسیل کی تقویت کے قائل ہیں، جیسا کہ