کتاب: مقالاتِ اثریہ - صفحہ 70
تقویت نہیں دے سکتی، بلکہ وہ ضعیف کی ضعیف رہے گی، دیکھیے راقم السطور کا مضمون ’’زیادۃ الثقہ اور وإذا قرأ فأنصتوا کی تصحیح کی حقیقت‘‘ 3. راوی متروک ہو۔ کیونکہ اس کی روایات میں منکر احادیث بہ کثرت پائی جاتی ہیں یا اس کی اغلاط اتنی زیادہ ہیں کہ اس کی صحت پر غالب ہیں، اسی لیے تو محدثین نے اسے متروک قرار دیا ہے۔ تقویت کی بعض مشکوک یا مختلف فیہ صورتیں: تقویت کی بعض صورتوں کے بارے میں محدثین کا اختلاف ہے کہ ایسے راویان کا ضعف زائل ہوگا یا نہیں؟ مثلاً مبہم راوی، مجہول العین، صغار تابعین کی مرسل، معضل، تلقین قبول کرنے والا۔ 1. مبہم راوی: جس کا نام اور شخصیت مجہول ہو، یعنی اسے رجل، شیخ سے تعبیر کیا جائے اور اس کا نام لینے سے گریز کیا جائے۔ امام ابن عبدالہادی رحمہ اللہ کا رجحان ایسے راوی کی عدمِ تقویت کی طرف ہے، جیسا کہ انھوں نے متعدد مقامات پر صراحت کی ہے ’’مبہم راوی کا حال مجہول الحال سے زیادہ برا ہے۔‘‘ (الصارم المنکي، ص: ۱۳۱، ۳۲۷) اور اس کی روایت کو رد کیا ہے۔ اگر مبہم راوی کی حدیث دوسری سندوں سے محفوظ ہو تو وہ مقبول ہے، کیونکہ ثقہ رواۃ اس کے مؤید ہیں اگر وہ ایسی حدیث بیان کرے جسے ضعیف راویان ہی بیان کرتے ہیں تو ایسی صورت میں اختلاف ہے کہ اس کی روایت بطورِ شاہد پیش کی جا سکتی ہے یا نہیں؟ حافظ ابن عبدالہادی رحمہ اللہ