کتاب: مقالاتِ اثریہ - صفحہ 69
6. مدلس راوی کا روایت میں عنعنہ وغیرہ ہو۔
7. جس راوی کو غلطی اور خطا سے موصوف قرار دیا گیا ہو۔
8. انقطاعِ خفیف ہو (وہ روایت معضل نہ ہو)۔
ملاحظہ ہو: معرفۃ أنواع علم الحدیث لابن الصلاح (ص: ۳۰، ۳۱)، نزھۃ النظر (ص: ۹۱)، النکت لابن حجر (۱/ ۳۸۸۔ ۳۹۸)
ایسے راویان یا حدیث کی متابعت دلیل ہوگی کہ انھوں نے حدیث درست طور پر حفظ کی ہے، ان کی کمزوریاں اس حدیث پر اثر انداز نہیں ہوئیں۔
عدمِ تقویت کے قابل ضعف:
ایسا نہیں کہ جس قسم کا ضعف ہو وہ تعددِ اسانید کی بنا پر مرتفع ہوجائے گا اور حدیث حسن لغیرہ ہوگی، بلکہ جو ضعف شدید ہوگا وہ ناقابلِ انجبار ہوگا اور حدیث، ضعیف کی ضعیف رہے گی یا زیادہ سے زیادہ اس کا ضعف خفیف ہوجائے گا اور وہ حدیث درجۂ احتجاج تک نہ پہنچ سکے گی۔ شدید ضعف کا خلاصہ یہ ہے کہ
1. راوی پر جھوٹ کا الزام ہو، یا اس پر انتہائی سخت جرح ہو جس سے اس کی روایت متابع یا شاہد میں پیش نہ کی جاسکے۔ مثلاً کذاب، دجال وغیرہ۔
ان اوصاف سے متصف راوی کی کمزوری متابعت سے رفع نہ ہوگی۔ متابعت کا انفرادی حکم ہوگا۔ ایسے کذاب وغیرہ کی روایت بھی اس متابع کے لیے سود مند نہیں ہوسکتی، البتہ اس کے ضعف میں اضافہ ضرور کرسکتی ہے۔
2. حدیث شاذ ہو۔
امام ترمذی رحمہ اللہ نے بھی اپنے ہاں حسن کی جو شرط لگائی ہے اس میں ہے کہ وہ حدیث شاذ نہ ہو۔ العلل الصغیر (ص: ۸۹۸) شاذ حدیث، شاذ حدیث کو