کتاب: مقالاتِ اثریہ - صفحہ 672
فیصلوں کو لوگوں پر ٹھونستے نہیں۔ اگر وہ کسی اثر یا قیاس کے بغیر لوگوں پر تحکم کریں گے تو وہ ان چیزوں میں ان کی تقلید نہیں کریں گے۔ اگر تقلید جائز ہوتی تو امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ سے جو پہلے گزرے ہیں، مثلاً امام حسن بصری رحمہ اللہ اور امام ابراہیم نخعی رحمہ اللہ زیادہ حق دار ہیں کہ ان کی تقلید کی جائے۔‘‘ (المبسوط للسرخسی، ۱۲/ ۲۸)
گویا علامہ شیبانی فرما رہے ہیں کہ کسی دلیل کے بغیر کوئی فیصلہ قبول نہیں کیا جائے گا۔ حتی کہ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کا فیصلہ بھی قبول نہیں کیا جائے گا۔ کیونکہ بلا دلیل فیصلے کو قبول کرنا ہی تقلید ہے۔ اگر یہ روا ہوتی تو امام حسن بصری اور امام ابراہیم نخعی رحمہما اللہ اس کا زیادہ استحقاق رکھتے تھے۔ چوں کہ ان کی بھی تقلید نہیں کی جاتی اس لیے امام ابوحنیفہ بھی اس کے حق دار نہیں ہیں۔
تعجب ہے کہ مولانا صاحب امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کی رائے حجت قرار دینے پر تلے ہیں اور علامہ شیبانی ہیں کہ اسے تسلیم ہی نہیں کررہے بلکہ الٹا دلیل کا تقاضا فرما رہے ہیں۔ کیا ہم ان سے پوچھنے کی جسارت کرسکتے ہیں کہ علامہ شیبانی نے امام صاحب کی بے ادبی کی ہے یا انھیں حجت باور کرایا ہے؟ ان کے اس سوئے ادب کی بنا پر کیا آپ انھیں بھی ’’دو پیسے کا آدمی‘‘ کا تمغہ عطا فرمانے کے لیے تیار ہیں؟ امیدِ واثق ہے کہ آپ کے ہاتھ سے عدل وانصاف کا دامن نہیں چھوٹے گا۔