کتاب: مقالاتِ اثریہ - صفحہ 671
محدثین وفقہاء کے ہم نوا ہیں، جس کی وضاحت امام ابن المنذر نے الاوسط میں اور خود امام صاحب کے شاگرد علامہ شیبانی نے کتاب الأصل (ج:۱، ص:۱۴۴) میں کی ہے۔
اگر امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کی رائے سے اختلاف کرنا ہی اچھے بھلے آدمی کو ’’دو پیسے کا آدمی‘‘ بنا دیتا ہے تو اس کے حق داروں میں تنہا اہلِ حدیث ہی کیوں؟ مولانا ارشد صاحب کم از کم امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے مایہ ناز شاگرد، چہل کمیٹی کے عظیم رکن محمد بن حسن شیبانی کے بارے میں کیا فیصلہ صادر فرمائیں گے جنھوں نے اپنے استاد کی گستاخی کرتے ہوئے ان کے بلا دلیل فیصلے کو تحکم اور سینہ زوری قرار دیا۔ پھر مستزاد یہ کہ انھوں نے اپنے استاد کی تقلید کی بیخ کنی کی۔ چناں چہ علامہ سرخسی رقم طراز ہیں:
’’ وقد استبعد محمد قول أبی حنیفۃ فی الکتاب لہذا وسماہ تحکماً علی الناس من غیر حجۃ۔ فقال: ما أخذ الناس بقول أبي حنیفۃ وأصحابہ إلا بترکہم التحکم علی الناس فإذا کانوا ہم الذین یتحکمون علی الناس بغیر أثر ولا قیاس لم یقلدوا ہذہ الأشیاء ولو جاز التقلید کان من مضی من قبل أبي حنیفۃ مثل الحسن البصری وإبراہیم النخعي أحری أن یقلدوا ۔‘‘
’’محمد بن حسن شیبانی نے امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے قول کو ’’الکتاب‘‘ میں بعید قرار دیا ہے اور عدمِ دلیل کی بنا پر اس کا نام تحکم (لوگوں پر زبردستی ٹھونسنا) اور سینہ زوری رکھا ہے۔ کہا: لوگ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ اور ان کے شاگردوں کے فیصلے کو اسے لیے قبول کرتے ہیں کہ وہ اپنے