کتاب: مقالاتِ اثریہ - صفحہ 670
عرض ہے کہ پہلے سندِ صحیح سے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا یہ اثر ثابت کریں ثبّت العرش ثم انقش۔ جبکہ اس کے برعکس صحیح سند سے موطأ امام مالک (ج:۱، ص: ۴۷۸، حدیث: ۲۷۱ بروایات الثمانیۃ) میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا اثر موجود ہے کہ انھوں نے حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ اور تمیم داری رضی اللہ عنہ کو حکم دیا کہ وہ لوگوں کو گیارہ رکعت نمازِ تراویح پڑھائیں۔ محدث البانی رحمہ اللہ نے اسے صلاۃ التراویح (ص:۴۵، ۴۶)، شیخ سلیم بن عید ہلالی حفظہ اللہ نے مؤطا کی تخریج میں صحیح قرار دیا ہے۔ لطف یہ کہ مشہور ہندوستانی عالم نیموی صاحب نے بھی آثار السنن (ص:۲۰۳) میں اس کی سند کو صحیح قرار دیا ہے۔ مقلدین احناف حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے بیس رکعات نمازِ تراویح کے فیصلے کو تو ناقابلِ چیلنج قرار دیتے ہیں مگر ان کے حکومتی فیصلوں کو کیوں فراموش کرجاتے ہیں جو مسلکِ احناف کے خلاف ہوتے ہیں۔ مثلاً مشہور تابعی حضرت اسلم رحمہ اللہ کا بیان ہے: ’’ کتب عمر بن الخطاب أن وقت الظہر إذا کان الظل ذراعاً إلی أن یستوی أحدکم بظلہ‘‘(الأوسط لابن المنذر، ج:۲، ص:۳۲۸، ح: ۹۴۸ سندہ صحیح) ’’حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے لکھا کہ ظہر کا وقت ایک ذراع سایہ ہونے سے لے کر آدمی کے برابر سایہ ہونے تک ہے۔‘‘ سوال یہ ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے اس فیصلے کے برعکس مقلدین حضرات دو مثل کے بعد اذانِ عصر کیوں دیتے ہیں؟ جبکہ اس کا وقت تو ایک مثل سایہ ہونے کے بعد سے شروع ہوجاتا ہے۔ قاضی ابویوسف اور محمد بن حسن شیبانی کی ’’حق شاگردی‘‘ دیکھئے کہ وہ اس مسئلہ میں امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے مخالف جب کہ جمہور