کتاب: مقالاتِ اثریہ - صفحہ 669
ان کے علاوہ متعدد مسائل میں احناف نے امام صاحب کی رائے کو ترک کرکے دوسروں کی رائے کو ترجیح دی اور ان پر فتاویٰ دیے۔ اگر ضرورت محسوس ہوئی تو ان شاء اللہ باحوالہ یہ بھی بتلا دیا جائے گا۔ ’’شیخ الحدیث‘‘ صاحب کی برہمی: حضرت شیخ الحدیث صاحب کی گرم گفتاری کا اندازہ لگائیں، فرماتے ہیں: ’’میں کہنا یہ چاہتا ہوں اب تو کوئی آدمی کھڑے ہو کر، دو پیسے کا آدمی، اس کے پاس احادیث کا کچھ ذخیرہ نہیں ہے۔ دس، بیس، پچیس، پچاس احادیث کو رٹ لیا، کھڑے ہو کر کہہ رہا ہے کہ فلانے کو کیا حق پہنچتا ہے کہنے کا۔ حضرت عمر کون ہوتے تھے بیس رکعات تراویح کو قائم کرنے والے؟ ابوحنیفہ کون ہوتے ہیں؟‘‘ (بینات، ص:۳۳) گویا شیخ الحدیث فرما رہے ہیں کہ جس نے چند احادیث رٹ لیں مگر اس کے پاس ذخیرۂ حدیث سے کچھ نہیں وہ ’’دو پیسے کا آدمی‘‘ ہے۔ یعنی حفظِ حدیث کی یہ تعداد بھی اسے ’’دو پیسے کا آدمی‘‘ کے زمرہ سے نہیں نکال سکتی۔ ہم تو صرف یہ عرض کریں گے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’بلغوا عنی ولو آیۃ‘‘ (بخاری: ۳۴۶۱ عن عبداللّٰه بن عمرو) ’’اگر ایک آیت (یا حدیث) کا علم بھی ہو تو اسے بھی دوسروں تک پہنچاؤ۔‘‘ انھوں نے حفظِ حدیث کے حوالے سے جو تضحیک کی وہ بہرحال قابلِ مذمت ہے۔ وہ فرماتے ہیں کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے متعلق یہ اعتراض کرنے کی گنجائش نہیں کہ انھوں نے بیس رکعات تراویح کیوں شروع کروائی؟ کیوں کہ وہ اعلم، ازہد، اتقی وغیرہ ہیں۔ لہٰذا ان کی رائے بھی صحیح احادیثِ نبویہ کے خلاف حجت ہے؟!