کتاب: مقالاتِ اثریہ - صفحہ 668
’’ولکل واحد منہم أصول مختصۃ تفردوا بہا عن أبي حنیفۃ وخالفوہ فیہا‘‘ (النافع الکبیر، ص:۹۹، ضمن مجموعۃ الرسائل الست)
’’ان میں سے ہر ایک کے مخصوص اصول ہیں جن میں وہ امام ابو حنیفہ سے منفرد ہیں اور انھوں نے ان میں ان کی مخالفت کی ہے۔‘‘
دوسری جگہ مولانا لکھنوی اپنا تبصرہ یوں پیش فرماتے ہیں:
’’ فإن مخالفتہما فی الأصول کثیرۃ غیر قلیلۃ ۔‘‘
’’ان دونوں (قاضی، شیبانی) نے امام صاحب سے اصولوں میں مخالفت کم نہیں کی، بلکہ بہت زیادہ کی ہے۔‘‘ (حاشیہ الفوائد البہیۃ، ص:۱۶۳)
کتنے مسائل میں قاضی ابویوسف نے ابن ابی لیلیٰ کی رائے کو ترجیح دی اور امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کی رائے کو مرجوح قرار دیا۔ امام ابوحنیفہ کے شاگرد عصام بن یوسف بلخی نے امام صاحب سے بہت زیادہ اختلاف کیا۔ (ایقاظ الہمم للفلاني، ص: ۵۱، ۵۲، البحر الرائق، ج:۶، ص:۲۹۳)
اکابر احناف کو کیوں ضرورت پیش آئی کہ وہ مفتی کو پابند کریں کہ وہ عبادات میں امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے قول پر اور مسئلۂ وقف وقضا میں قاضی ابویوسف کے قول پر فتویٰ دے۔ (رسم المفتی، ص:۳۵۔ رد المحتار، ج: ۱، ص: ۷۱۔ فتاویٰ قاضی خاں، ج:۱، ص:۳ مع عالمگیری)۔
جب صاحبین (ابویوسف اور محمد) اور امام صاحب باہم مخالف ہوں تو مفتی جس قول پر چاہے فتویٰ دے۔ (ردّ المحتار، ج:۱، ص:۷۰ وقاضی خان، ج:۱، ص:۳) سترہ مسائل میں زفر کے قول پر فتویٰ دیا جائے۔ (ردّ المختار، ج:۱، ص:۷۱) مزید شروط دیکھنے کے لیے ملاحظہ ہو: مقالات الاستاذ الأثری (ج:۱، ص:۱۵۱)