کتاب: مقالاتِ اثریہ - صفحہ 667
نے بھی اپنے استاد کے بلا دلیل فیصلے کو تحکم اور سینہ زوری قرار دیا ہے۔ (المبسوط للسرخسی، ج:۱۲، ص:۲۸) چناں چہ جو اصول شیخ الحدیث صاحب وضع کررہے ہیں اس سے وہ تلامذہ بھی بے خبر رہے جنھوں نے امام صاحب سے براہِ راست زانوئے تلمذ تہ کیے اور وہ ائمہ بھی، جنھوں نے مسلکِ احناف کے لیے قابلِ قدر کاوشیں کیں، اس اصول تک نہ پہنچ سکے جس کی عقدہ کشائی دیوبند کے شیخ الحدیث کے مقدر میں آئی۔ فروعات اور جزئیات میں اختلاف تو اپنی جگہ موجود، اصولوں میں بھی امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ سے ان کے تلامذہ نے اختلاف کیا۔ علامہ غزالی کا تو یہاں تک کہنا ہے کہ قاضی ابویوسف اور محمد شیبانی نے امام صاحب سے دو تہائی مذہب میں اختلاف کیا ہے۔ (النافع الکبیر، ص:۹۹) چلیے اس قدر اختلاف نہ سہی، کم از کم ایک تہائی میں تو ان دونوں تلامذہ کا امام صاحب سے اختلاف مسلم ہے۔ جس کی گواہی علامہ ابن عابدین حنفی نے یوں دی ہے: ’’ فحصل المخالفۃ من الصاحبین في نحو ثلث المذہب‘‘(حاشیہ ابن عابدین، ج:۱، ص:۶۷) ’’کہ صاحبین (قاضی ابویوسف، محمد) نے امام ابوحنیفہؒ سے ایک تہائی مذہب میں اختلاف کیا ہے۔‘‘ علامہ شبلی نعمانی رقم طراز ہیں: ’’قاضی ابویوسف اور امام محمد نے بہت سے مسائل میں امام ابوحنیفہ کی رائے سے اختلاف کیا ہے۔‘‘ (سیرۃ النعمان، ص:۲۳۰) اصول میں اختلاف کے حوالے سے علامہ عبدالحی لکھنوی، شیخ شہاب الدین حنفی سے نقل کرتے ہیں: