کتاب: مقالاتِ اثریہ - صفحہ 666
’’یہ نہیں کہا جائے گا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی تقلید کی، کیونکہ مجتہد کا مجتہد کی تقلید کرنا جائز نہیں۔‘‘
علامہ شبیر احمد عثمانی نے بھی صراحت فرمائی ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی بات اسی وقت تسلیم کی، جب انھوں نے ان کی پیش کردہ دلیل کی صحت دیکھی، ان کی تقلید نہیں کی۔ (فتح الملہم، ج:۱، ص:۱۹۳)
ان کے علاوہ دیگر شارحینِ حدیث نے بھی تصریح کی ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ پر اسی وقت اعتماد کیا جب انھوں نے ان کی دلیل کو ملاحظہ کیا، ان کی تقلید نہیں کی۔ جن میں امام بیہقی (لامع الدراری، ج:۵، ص:۱۴۔۱۵ تعلیقات الکاندلوی) امام نووی (شرح مسلم، ص:۱۰۱، طبع بیت الافکار) امام ابن حجر (فتح الباری، ج:۱۲، ص:۲۷۹) امام سیوطی (الدیباج، ج:۱، ص:۱۵۶) علامہ الابی (اکمال اکمال المعلم، ج:۱، ص:۱۰۷) علامہ کرمانی (شرح صحیح بخاری، ج:۷، ص:۱۷۳) محدث عبدالرحمن مبارک پوری (تحفۃ الأحوذی، ص:۱۹۹۴، حدیث: ۲۶۰۷، طبع بیت الافکار) وغیرہ شامل ہیں۔ گویا ان کا مدعا کہ ’’حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کا قول ہی محض حجت ہے‘‘ پورا نہ ہوسکا۔
امام ابوحنیفہ، ان کے تلامذہ اور احناف کا طرزِ عمل:
امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے تلامذہ بالخصوص اور اکابر احناف بالعموم اس بات سے بخوبی واقف تھے کہ امام صاحب ازہد، اعلم، اتقی، اروع الناس فی عصرہ ہیں اور ان کی علمی ثقاہت بھی مسلم ہے۔ ان کا زمانہ بھی عہدِ نبوی کے قریب ہے۔ مگر اس کے باوجود انھوں نے امام صاحب کی رائے کو دلیل اور حجت نہیں سمجھا بلکہ انھوں نے بھی امام صاحب سے متعلقہ مسئلے کی دلیل طلب کی۔ جیسا کہ محمد بن حسن شیبانی