کتاب: مقالاتِ اثریہ - صفحہ 665
کے لیے ہاتھ پاؤں مار رہے ہیں۔ إنا للّٰه وإنا إلیہ راجعون۔
تقلید کا یہی المیہ اور تاریک پہلو ہے کہ اگر کوئی صحابی کسی مسئلے میں ایسی رائے دے جو شریعت کے مطابق نہ ہو تو اس کے بارے میں بڑی سادگی سے کہہ دیا جاتا ہے کہ عین ممکن ہے اس مسئلے کی کوئی دلیل اس صحابی تک نہ پہنچی ہو یا وہ نسیان کا شکار ہوگئے ہوں۔ بلاشبہ یہ معقول عذر ہے۔ لیکن اپنے امام کی رائے کے تحفظ کے لیے صحیح نصوص کی تاویلیں بڑی بے باکی سے کی جاتی ہیں مگر ان کی رائے کو غلط کہنے کی کوئی جسارت نہیں کرتا۔ بلکہ الٹا یہ اصول بنایا جاتا ہے کہ جس شخص کا رسوخ فی العلم مسلّم ہو، اور وہ ازہد، اتقی، اروع ہو اس کی رائے تو فرمانِ نبوی کے خلاف بھی حجت ہے۔ اس کے فہم کا تو اعتبار ہوگا حدیثِ نبوی کا نہیں۔ لا حول ولا قوۃ إلا باللّٰه
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی تقلید نہیں کی:
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اسی وقت سکوت اختیار کیا جب وہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی دلیل سے مطمئن ہوگئے۔ ان کی دلیل کے حوالے سے ہم علامہ عینی، علامہ شبیر عثمانی کے اقوال کے علاوہ دیگر شارحینِ حدیث کی آرا بھی پیش کرچکے ہیں جن سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کی تقلید نہیں کی۔ بلکہ ان کی رائے کو ان کی دلیل کی بدولت ہی مستحکم سمجھا اور اسے قبول کیا۔ اس کی گواہی احناف کے وکیل علامہ عینی نے صحیح بخاری کی شرح میں اس طرح دی ہے:
’’ فلا یقال لہ: إنہ قلد أبا بکر، لأن المجتہد لا یجوز لہ أن یقلد المجتہد‘‘ (عمدۃ القاری، ج:۸، ص:۲۴۶)