کتاب: مقالاتِ اثریہ - صفحہ 664
4 علامہ انور شاہ کشمیری کا فیض الباری (ج:۳، ص:۴) میں یہ رجحان معلوم ہوتا ہے کہ انھوں نے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی دلیل ’’زکاۃ کو نماز پر قیاس کرنا‘‘ قرار دیا ہے، فرماتے ہیں: ’’ قولہ: ’’من فرق بین الصلاۃ والزکوۃ‘‘ یدل صراحۃً علی أن ترک الصلاۃ کان من موجبات القتل عندہما بالاتفاق، فإن إکفار من أنکر ضروریات الدین من ضروریات الدین ‘‘ ’’حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کا یہ فرمان ’’جو نماز اور زکوٰۃ کے مابین فرق کرے گا‘‘ (میں اس سے جنگ کروں گا) صراحتاً دلالت کرتا ہے کہ ان دونوں (شیخین) کے ہاں تارکِ نماز واجب القتل ہے۔ کیوں کہ لوازماتِ دین کے منکر کو کافر قرار دینا (اور اس سے جنگ کرنا) لوازماتِ دین میں سے ہے۔‘‘ 5 دارالعلوم نعیمیہ، کراچی کے شیخ الحدیث غلام رسول سعیدی صاحب نے بھی قیاس اور عموم سے استدلال کو حضرت ابوبکر کی دلیل قرار دیا ہے۔ (شرح صحیح مسلم، ج:۱، ص:۳۸۳، ۳۸۴) امام منذری (مختصر سنن أبي داود: ۲/ ۱۶۵) اور علامہ کرمانی (شرح البخاري: ۷/ ۱۷۳) وغیرہما نے بھی نص، عموم اور قیاس کو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی دلیل قرار دیا ہے۔ ان سب آرا کا خلاصہ یہ ہے کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کا استدلال نص سے تھا، یا قیاس یا پھر عموم سے۔ اب ذرا غور کیجیے کہ علمائے احناف کی اس تصریح کے باوجود مولانا صاحب کتنی دیدہ دلیری سے حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کی محض رائے کو حجت قرار دیتے ہیں اور اسی کی آڑ میں امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کی رائے کو بھی حجت قرار دینے