کتاب: مقالاتِ اثریہ - صفحہ 663
المستفاد من قولہ صلی اللّٰه علیہ وسلم ((إلا بحقہ))، وبالمقایسۃ بین الصلاۃ والزکوۃ، وبکونہما قرینتین فی کتاب اللّٰه ۔‘‘ (فتح الملہم شرح صحیح مسلم: ۱/ ۱۹۳) ’’حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے خلاف نصِ صریح، فرمانِ نبوی ’’إلا بحقہ‘‘ کے عموم اور زکاۃ ونماز کے ہم قیاس ہونے کو بطورِ دلیل پیش کیا۔ کیوں کہ نماز اور زکاۃ قرآنِ مجید میں (عمومی طور پر) اکٹھے بیان کیے گئے ہیں۔‘‘ 2 علامہ عینی شرح صحیح بخاری میں رقم طراز ہیں: ’’حیث انشرح صدرہ أیضاً بالدلیل الذی أقامہ الصدیق نصاً و دلالۃ وقیاساً ۔‘‘ ’’کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو انشراحِ صدر اسی وقت ہوا جب حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے بطورِ دلیل نص، عموم اور قیاس کو پیش کیا۔‘‘ (عمدۃ القاری، ج:۸، ص:۲۴۶) 3 علامہ رشید احمد گنگوہی نے ’’إلا بحقہ‘‘ میں جو عموم بیان ہوا ہے اس کو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی دلیل قرار دیا ہے۔ ان کے الفاظ ہیں: ’’ وذلک لأنہم کانوا مذکورین فیمن استثناء النبی صلی اللّٰه علیہ وسلم بقولہ (( إلا بحقہ )) إلا أن عمر لم یفہمہ وقد فہمہ أبوبکر وکان أعلمہم ۔‘‘ (لامع الدراري: ۵/ ۱۵، ۱۶) خلاصہ یہ ہے کہ مانعینِ زکاۃ سے جنگ کا حکم ’’إلا بحقہ‘‘ میں پنہاں ہے جسے حضرت عمر رضی اللہ عنہ تو نہ سمجھ سکے جب کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اسے سمجھ لیا، کیوں کہ صحابہ میں وہ سب سے بڑھ کر عالم تھے۔‘‘