کتاب: مقالاتِ اثریہ - صفحہ 662
شیخ الحدیث صاحب کا استدلال یہ ہے کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ چوں کہ اپنے ہم عصروں میں ممتاز ہیں اور ان کی علمی ثقاہت بھی مسلّم ہے۔ انھوں نے جب مانعینِ زکاۃ سے جنگ کا فیصلہ کیا تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ ان پر معترض ہوئے اور حدیثِ نبوی پیش کی۔ جسے سن کر حضرت ابوبکر نے کوئی دلیل نہ دی بلکہ اپنی رائے بتلائی کہ میں ان سے جنگ کروں گا اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ان کی رائے ہی کو حجت سمجھا جس بنا پر وہ خاموش ہوگئے۔ اس لیے جو بھی اپنے ہم عصروں سے ممتاز ہو اور اس کا زمانہ بھی عہدِ نبوی کے قریب ہو تو نص کے مقابلے میں اس کی رائے حجت ہوگی۔ اعتبار اسی کا ہوگا جو اس نے سمجھا ہے ظاہرِ نص کو نہیں لیا جائے گا۔
مولانا کے برعکس احناف کی رائے:
شیخ الحدیث صاحب امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کی رائے کو حجت قرار دینے کے لیے بڑی دور کی کوڑی لائے ہیں، اور ان کی تقلید میں ایسے سرگرداں ہوئے کہ معمولی تدبر بھی نہ کرسکے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے فیصلے پر کیوں خاموش ہوگئے؟ … کیا اس لیے کہ یہ صرف حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی رائے تھی؟ یا حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پیشِ نظر کوئی قرآنی آیت تھی؟ یا کوئی خاص صریح حدیث تھی جس کی روشنی میں انھوں نے فیصلہ صادر فرمایا؟ یا پھر انھوں نے زکاۃ کو نماز پر قیاس کیا؟ یا انھوں نے اسی حدیث میں موجود ایک ٹکڑے ’’إلا بحقہ‘‘ کے عموم سے استدلال کیا جسے دلیل مان کر حضرت عمر رضی اللہ عنہ خاموش ہوئے؟ اگر یہ ان کی ذاتی رائے تھی اور وہ حجت تھی تو پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ان پر اعتراض کیوں کیا؟
1 اس کے جواب میں علامہ شبیر احمد دیوبندی صحیح مسلم کی شرح میں لکھتے ہیں:
’’احتج الصدیق علی الفاروق بالنص الصریح، وبالعموم