کتاب: مقالاتِ اثریہ - صفحہ 661
بھی حجت ہے۔ گو وہ دلیل کے جواب میں اپنی رائے پیش کررہا ہے۔
مولانا صاحب کو اس اصول کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ اس کے پسِ پردہ کیا حقائق ہیں؟ اس کی توضیح انھوں نے نہیں فرمائی، تاہم جس حقیقت تک ہم پہنچے ہیں وہ یہ ہے کہ چوں کہ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ پیدائش کے اعتبار سے مشہور ائمہ اربعہ رحمہم اللہ میں مقدم ہونے کی وجہ سے عہدِ نبوی کے قریب ہیں۔
وہ اس برتری کی وجہ سے امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کی رائے کو حجت قرار دینے کی کوشش کررہے ہیں تاکہ ان کی تقلید کو شرعی حجت قرار دیا جاسکے۔
مولانا کا استدلال:
مولانا ارشد صاحب نے اس اصول کی دلیل یہ دی کہ ’’وفاتِ نبوی کے بعد حضرت صدیقِ اکبر رضی اللہ عنہ کے دورِ خلافت میں مانعینِ زکاۃ سے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے جنگ کا اعلان کیا تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ آڑے آئے اور فرمایا: آپ لوگوں (مانعینِ زکاۃ) سے کیسے جنگ کریں گے جب کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تو ارشاد فرمایا:
’’مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں اس وقت تک لڑوں جب تک وہ شہادتین کا اقرار نہ کرلیں جب وہ اس کا اقرار کرلیں تو انھوں نے مجھ سے اپنے خون اور اموال محفوظ کرلیے ہیں اور ان کا حساب اللہ پر ہے۔‘‘
جواباً حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے ارشاد فرمایا کہ اگر کسی نے ایک رسی بھی نہ دی جو وہ زکاۃ میں دیتا تھا تو میں اس سے جنگ کروں گا۔ تو حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ یہ سن کر فرمانے لگے کہ جب اللہ تعالیٰ نے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کا سینہ مانعینِ زکاۃ سے جنگ کرنے کے لیے کھول دیا تو میں نے بھی جان لیا کہ حق حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے ساتھ ہے۔‘‘ (بینات، ص:۳۲ ملخصاً)